Get Alerts

سعودی عرب میں قید پاکستانیوں کی حالت زار پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کا اظہار تشویش

سعودی عرب میں قید پاکستانیوں کی حالت زار پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کا اظہار تشویش
انسانی حقوق کی تنظیموں نے سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں قید پاکستانیوں کی صورتحال پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو وطن واپس لانے کیلئے سنجیدہ اقدام اٹھائے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ڈپٹی ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا عمر وڑائچ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات محض دونوں ملکوں کے حکمرانوں تک محدود نہیں رہنے چاہیں بلکہ اس سے دونوں ممالک کے شہریوں کی یکساں توقیر اور بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ بھی یقینی بنایا جائے۔

ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق خلیجی ممالک، بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں جیلوں میں ڈالے جانے اور پھانسی پر چڑھا دیے جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے جبکہ ایک اور اطلاع کے مطابق پچھلے 3 دنوں میں 3700 پاکستانی گرفتار کیے جا چکے ہیں، جہاں کوئی پاکستانی نظر آتا ہے پکڑ لیا جاتا ہے۔ اس صورتحال کے باعث پچھلے 2 دنوں سے پاکستانی گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں پاکستانی قیدیوں کی تعداد 1506 سے بڑھ کر 3248 جبکہ متحدہ عرب امارات میں 1800 سے بڑھ کر 2600 ہو چکی ہے۔ بیرون ملک سلاخوں کے پیچھے بند پاکستانیوں میں سے 57 فیصد سے زائد ایسے افراد سزا کاٹ رہے ہیں جنہیں قیدیوں کے تبادلے کے معاہدوں کے ذریعے باآسانی وطن واپس لایا جا سکتا ہے۔

قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی پاکستانی تنظیم "جسٹس پراجیکٹ پاکستان" کا کہنا ہے کہ جیل جانے اور موت کے گھاٹ اتار دیے جانے والے سمندر پار پاکستانیوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ اس سلسلہ میں پاکستانی سفارتخانے کی طرف سے اپنے شہریوں کے تحفظ کے لئے کوئی یکساں اور واضح پالیسی کا نہ ہونا ہے۔

رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں قید پاکستانی اس حال میں سعودی عدالتوں کے رحم و کرم پر ہیں کہ انہیں نہ تو وکیل کی سہولت میسر ہے، نہ غیر جانبدار مترجم کی، اور نہ ہی مؤثر قونصلر معاونت۔ انہیں مقامی قانون کی سمجھ اور مدد حاصل نہ ہونے کے باعث وہ براہ راست عدالت کو اپنا مؤقف بتا پاتے ہیں اور نہ اس کے حق میں پاکستان سے کوئی شہادت پیش کر پاتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 17 فروری کو سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان کی طرف سے سعودی عرب میں قید پاکستانیوں کی فوری رہائی کا وعدہ کئے جانے کو پورا سال ہو گیا ہے، جسے پورا نہ کئے جانے پر ایمنسٹی انٹرنیشنل اور "جسٹس پراجیکٹ پاکستان" کی طرف سے شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی ان تنظیموں نے پاکستانی اور سعودی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ ان 2 ہزار سے زائد پاکستانیوں کی وطن واپسی یقینی بنانے کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں جن کے لئے سعودی ولی عہد نے معافی دے دی تھی۔

جدہ کی ذھبان جیل میں مئی 2017 سے بند پاکستانی معمر خاتون کے 36 سالہ بیٹے محبوب بیگ کا کہنا ہے کہ میری ماں کی عمر 60 سال سے زائد ہے، جس کی روتے روتے ایک آنکھ کی بینائی چلی گئی ہے، اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی صحت گرتی جا رہی ہے۔ شہزادے کا اعلان سن کر لگا تھا بس اب دنوں کی بات ہے کہ ہماری والدہ ہمارے ساتھ ہوں گی لیکن پورا سال بیت گیا، ہم آج تک ان کی راہ تک رہے ہیں۔

دونوں ملکوں کی بیوروکریسی شہزادے کے ایک سال قبل کئے گئے وعدے پر عملدرآمد اور پاکستانی شہریوں کی فوری رہائی اور وطن واپسی یقینی بنانے پر ضروری کام کریں۔

جسٹس پراجیکٹ پاکستان نے سعودی عرب میں قید پاکستانیوں کی رہائی بارے اطلاع رسانی میں حکومتی مؤقف کی عدم شفافیت پر بھی تشویش ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ گذشتہ سال 12 نومبر کو حکومت کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ میں 579 پاکستانیوں کی سعودی جیلوں سے رہائی کا بیان دیا گیا لیکن تحقیقات سے پتہ چلا کہ سعودی شہزادے کے وعدے کے بعد صرف 89 پاکستانیوں کی رہائی عمل میں آئی جبکہ باقی تمام کو اس سے پہلے ہی رہا کر کے ڈی پورٹ کیا جا چکا تھا۔

پارلیمنٹ میں، عدالتوں میں اور میڈیا میں مختلف بیان دینا ایک نئی تشویش کو جنم دے رہا ہے، سرکاری تضاد بیانی کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے جو یہاں ایک سال سے اپنے پیاروں کے منتظر گھرانوں کی ڈھارس بندھانے کے لئے ناگزیر ہے۔

رپورٹ کے مطابق ان میں سے زیادہ تر پاکستانی محنت کش ایسے ہیں جنہیں اس سے پہلے بیرون ملک سفر کرنے کا اتفاق نہیں ہوا، اور جو مقامی قوانین، حتیٰ کہ اپنے حقوق سے بھی ناآشنا ہیں۔ ان میں سے بہت سوں کو تشدد کی دھمکی دے کر منشیات کی سمگلنگ پر مجبور کیا گیا جبکہ ان کا زیادہ سے زیادہ قصور ترک وطن کی بابت مناسب پراسیس پورا نہ کرنا تھا، جو کبھی بھی کسی کو موت کی سزا دینے کی بنیاد نہیں رہا مگر وہ بلیک میل ہو کر نتیجتاً موت کے سزاوار ٹھہرا دیے گئے ہیں۔

ڈپٹی ڈائریکٹر ایمنسٹی انٹرنیشنل فار ساؤتھ ایشیا عمر وڑائچ کا کہنا ہے پاکستانی حکومت اپنے سمندر پار پاکستانیوں کی طرف سے بھجوائے جانے والے زرمبادلہ پر تو بڑا فخر کرتی ہے مگر جن مشکل حالات میں وہ وہاں کام کرتے ہیں اور جیسی سخت تر سزائیں جھیلتے ہیں، اس پر حکومت کی کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں۔

عمر وڑائچ کے مطابق ان پاکستانیوں کو یہ صعوبتیں مقامی نظام قانون کی وجہ سے جھیلنا پڑتی ہیں جس میں بنیادی انسانی حقوق کو پامال کیا جاتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے نمائندے کا کہنا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے قریبی تعلقات ان پاکستانی شہریوں کی آزمائش بالآخر ختم کرنے کے کام آنے چاہیں۔ جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی سربراہ بیرسٹر سارہ بلال کہتی ہیں کہ ایک شہزادے نے ایک وزیراعظم سے ایک وعدہ کیا تھا جسے پورا کئے جانے کو پورا ایک سال ہونے کو آیا ہے۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ تکلیف میں مبتلا اپنے سمندر پار شہریوں کے لئے ایڈہاک بنیادوں پر، یعنی عارضی ریلیف پر انحصار کرنے کی بجائے ضروری قانون سازی اور سفارتخانے کی طرف سے انہیں تحفظ فراہم کئے جانے کی کوئی شفاف یکساں پالیسی وضع کی جائے تاکہ خلیجی ریاستوں، بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں ابتلا کا شکار پاکستانیوں کی مدد کا کوئی مستقل نظام وجود میں آسکے۔