الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صدر مملکت عارف علوی کے خط کا جواب دے دیا۔ خط میں چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن نے صدر عارف علوی کے خط کے جواب میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کے بارے میں بے حسی کے الفاظ لکھنا مناسب نہیں۔ صدر کی جانب سے ایسے الفاظ پر افسوس اور مایوسی ہوئی ہے۔
خط کے جواب میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن ایک آزاد اور خودمختار ادارہ ہے جو آئین اور قانون پر عمل کرتا ہے۔ الیکشن کمیشن عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کرتا ہے اور ان پر من و عن عمل کرتا ہے۔
ادارے نے صدر مملکت کی جانب سے طلب کردہ اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کیا ہے جس میں الیکشن کمیشن ارکان اور اعلیٰ حکام ایوان صدر میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کریں گے۔
ایوان صدر میں اجلاس پیر کے روز دن 11 بجے طلب کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نتخابات سے متعلق ہنگامی اجلاس کی دعوت دی تھی۔
خط کے متن کے مطابق صدر مملکت نے سکندر سلطان راجہ کو 20 فروری 2023 کو ایوان صدر میں سیکشن 57 ایک کے تحت الیکشنز کے حوالے سے مشاورت کے لیے دعوت دی۔
خط میں صدر مملکت نے کہا کہ ایکٹ کے تحت صدر مملکت عام انتخابات کی تاریخ یا تاریخوں کا اعلان کمیشن سے مشاورت کے بعد کریں گے۔ اس معاملے پر لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے اور سپریم کورٹ کے حالیہ مشاہدات جیسی کچھ اہم پیش رفت ہوئی۔
صدر مملکت کی جانب سے انتخابات کے معاملے پر الیکشن کمیشن کی بے حسی پر ناراضگی کا اظہار بھی کیا گیا۔
صدر مملکت نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ابھی تک پہلے خط کا جواب نہیں دیا۔میں بے چینی سے انتظار کر رہا تھا کہ کمیشن اپنے آئینی فرائض کا احساس کرے گا اور اس کے مطابق کام کرے گا۔ اہم معاملے پر الیکشن کمیشن کے افسوسناک رویے سے انتہائی مایوسی ہوئی۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ آئین کے تحفظ اور دفاع کی اپنی آئینی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر کو اپنے دفتر میں الیکشن پر مشاورت کیلئے ہنگامی ملاقات کیلئے مدعو کرتا ہوں۔
اس سے قبل صدر عارف علوی نے 8 فروری کو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کے لئے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو خط لکھا تھا۔
صدر عارف علوی نے خط میں لکھا کہ ’الیکشن ایکٹ 2017‘ کے مطابق پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کا فوری اعلان کریں تاکہ صوبائی اسمبلی اور مستقبل کے عام انتخابات کے حوالے سے خطرناک قیاس آرائیوں پر مبنی پروپیگنڈے کو ختم کیا جاسکے۔ آئین تاخیر کی اجازت نہیں دیتا۔
صدر نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے مطابق اسمبلی کے انتخابات تحلیل ہونے کے 90 روز کے اندر کروانا لازمی ہے کیونکہ آئین کا آرٹیکل 224 (2) اسمبلی کے انتخابات تحلیل ہونے کے 90 دن کے اندر انتخابات کرانے پر زور دیتا ہے۔
ن کا کہنا تھا کہ سربراہ ِمملکت ہونے کی حیثیت سے آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف لیا۔ آئین اور الیکشن ایکٹ 2017 کی خلاف ورزی کے سنگین نتائج سے بچنے کیلئے انتخابی شیڈول کا اعلان کیا جائے۔