"جاگے ہیں خواب میں" پر تبصرہ

کوئی بھی اچھا ناول ہو وہ کتاب کے پہلے صفحے سے ہی قاری کو گرفت میں لے لیتا ہے اور اس ناول نے بھی ایسا ہی کیا اور اس کی کمالیت کا اندازہ اس سے بھی لگا سکتے ہیں کہ پڑھنے کے بعد بھی کافی عرصہ میں اس کی سرشاری میں مبتلا رہا۔ اختر رضا سلیمی کا یہ ناول اردو کے بڑے اور شاہکار ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔ حالانکہ اس کو کسی اور ناول سے ملانا نہیں چاہیے کیونکہ لکھاری نے ایک رُت سے ہٹ کر بالکل نئے  انداز میں یہ ناول لکھا ہے جو اردو کے ناول کی تاریخ میں پہلے کہیں نہیں ملتا۔

کہانی کا بنیادی کردار زمان ہے۔ Gelett Burgess کے نظریے کے مطابق زمان Sulphide ہے، جو عام لوگوں سے منفرد ہے۔ زمان بھی اور اس کا دادا ظفر علی خان دونوں ہی اسی طبقے میں آتے ہیں۔ باقی Bromides تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ زمان کی طبیعت کو جاننا کسی کے لئے اتنا آسان نہ تھا۔ وہ اس کو پاگل کہتے تھے یا جو ضعیف الاعتقاد تھے وہ پیر فقیر، ولی اللہ مان لیتے، کہ وہ پہاڑی پر جا کر کوئی چلا وغیرہ کاٹتا ہے۔ اصل بات تو یہ تھی کہ اس دنیا  کا ہو کر بھی وہ اس دنیا کا نہیں تھا۔ اور جب کوئی ایسی شے آ جائے جو انجان لگے ہم اسے یا تو سرے سے مانتے نہیں یا اسے بہت اوپر چڑھا دیتے ہیں۔ مگر وہ اپنی ایسی سطح پر ہی رہتی ہے جو اس عام لوگوں کی دنیا میں نہیں ہے۔ ایسا نہیں کہ کبھی آتی نہیں، وقت پر وہ سطح بھی قائم ہو جائے گی، مگر ابھی وقت نہیں آیا۔ ابھی زمان جیسے اور بہت سے دیوانے آئیں گے جو اس سطح کی تعمیر میں استعمال ہوں گے پھر جا کر اس معاشرے میں وہ سطح، وہ عمارت قائم ہو گی۔



ناول کا عنوان تو غالب کے شعر سے لیا ہے مگر اس کا مادہ اور جو کچھ بھی اس میں کھپا ہے وہ  دو ماہر نفسیات سے اخذ ہے۔ ایک فرائیڈ اور دوسرا ژونگ۔ اس ناول میں دونوں کا ذکر بھی ملتا ہے مگر دوسرے والے کا نسبتاً  پہلے والے سے کہیں زیادہ  ذکر ہے۔ موت پر جو بھی بحث کی ہے وہ ژونگ کی ہی ہے۔ کچھ فکشن نگار جیسے ڈی ایچ لارنس، موت پر بحث نہیں کرنا چاہتے اور صرف اتنا کہہ دیتے ہیں کہ “There is no ignominy in death” یا کہ موت کو انسان سمجھ نہیں سکتا کہ یہ انسان سے، انسان کے تخیل سے بالاتر ہے۔ مگر اختر رضا سلیمی صاحب کا گویا یہ محب موضوع  ہے۔ وہ کسی نہ کسی طرح اس موضوع کو چھیڑتے ہیں۔ اس میں موت کو خواب سے تشبیہہ دے کر چھیڑا اور دوسرے ناول "جندر" میں تو موت ہی بنیادی کردار بنا دیا۔

یہ ناول میں نے دو دنوں میں مکمل کیا۔ جتنی جلدی اسے  پڑھا گیا اتنی جلدی اسے لکھا نہیں گیا۔ یہ تو اختر رضا سلیمی صاحب اختصار کی طرف مائل ہیں، جو کہ بہت ہی اچھی بات ہے، وگرنہ اگر کوئی اور ہوتا تو اس ناول کی ضخامت 241 صفحوں سے کہیں زیادہ ہوتی۔ ناول کو پڑھ کر کوئی بھی باآسانی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس میں لکھاری کا برسوں کا مطالعہ ہے جس نے اسے اس قدر شاندار بنا دیا ہے۔ لکھاری نے کچھ بھی نہیں چھوڑا، کہاں نفسیات، طبیعیات اور پھر مابعد طبیعیات اور فلسفہ و تاریخ اور پھر فکشن کا اپنا رنگ۔ مجھے اردو فکشن میں منٹو صاحب کے بعد اگر کسی لکھاری نے اس قدر متاثر کیا ہے تو وہ اختر رضا سلیمی صاحب ہی ہیں۔ اتنا تو اداس نسلیں بھی کمال کا نہیں لگا جتنا یہ ہے، اور نہ ہی "غلام باغ" نے، جو اس وقت زیرِ مطالعہ ہے، مجھے مخمور کیا ہے، جتنا اس نے کیا۔

کہانی ایک شخص زمان، جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے، کے گرد گھومتی ہے۔ وہ پہلے کسی لڑکی کے عشق میں گرفتار تھا اور پھر اس کی کچھ عجیب عادات کے باعث اس نے اسے چھوڑ دیا۔ یہ نور آباد آ گیا۔ وہاں ایک پہاڑی پر فریفتہ ہو گیا جیسے وہ اس کے لئے "ماہ نور" تھی، وہ لڑکی جس پر وہ فریفتہ تھا۔ اوپر اس کی طبیعت کے لحاظ سے اس کا طبقہ بتا چکا ہوں، جو Sulphide ہے اور پھر اپنی ان ہی حرکتوں کی وجہ سے لوگ اسے پاگل اور ولی سمجھنے لگ گئے۔ کوئی اس کو سمجھتا نہیں تھا، سوائے ایک اس سا ہی شخص، عرفان۔ وہ اس کی عادتوں سے آگاہ تھا اور ان عادات کے پیچھے پوشیدہ وجوہات کا بھی علم رکھتا تھا۔ جیسے میں نے کہا کہ ژونگ کے فلسفے کا اس ناول میں کافی دخل ہے، یہاں بھی ژونگ آ جاتا ہے کہ انسان مستقبل میں آنے والے واقعات کی ہو بہو پیش گوئی کر سکتا ہے۔ کبھی یہ خوابوں میں نوید سنائی جاتی اور کبھی جاگتے ہوئے ہی خواب کی سی کیفیت طاری ہو جاتی۔ کچھ لوگوں کا متخیلہ اتنا دراز ہوتا ہے کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے ایسی زقند لگاتے ہیں کہ پتہ نہیں کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں۔ اور غالباً ایسے ہی لوگوں کو ایسے الہام ہوتے ہیں۔ اور یہ کوئی خلافِ قیاس بات نہیں ہے۔ زمان کچھ زیادہ سوچتا تھا اس لئے وہ زیادہ پیش گوئی کرتا تھا۔ مگر کبھی نہ کبھی ہر ایک کو ہی ایسی کوئی نوید آتی ہے اور جب وہ حقیقت بن جاتی ہے تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کتنا سچ تھا۔

لکھاری نے جس طرح collective unconscious کی وضاحت کی ہے وہ تعریف کے قابل ہے۔ جب زمان کومے میں ہوتا ہے تو وہ اپنے دادا، پر دادا اور ان کے والد اور اس سے بھی پہلے جو ان کی نسل کا کوئی تھا وہ بن جاتا ہے۔ بنتا تو نہیں مگر وہ تمام باتیں یاد کرتا ہے جو اس نےآنکھوں سے نہیں دیکھیں۔ تب تو وہ مائع کی حالت میں بھی نہیں ہوگا جب یہ سب کچھ ہوا اور اسے یہ سب  لاشعوری طور پر یاد تھا۔ ژونگ نے کہا تھا کہunconscious  کے دو درجے ہیں، ایک جو فرائیڈ نے بتایا اور دوسرا جو اوپر لکھا ہے جس میں ایک نسل سے دوسری نسل میں  پہلے والی نسل کی یادیں خود بخود منتقل ہو جاتی ہیں۔ اسی لئے جب اس کا شعور کچھ دیر کے لئے خاموش ہو گیا تھا، اس کا لاشعور بہت ایکٹو ہو گیا تھا سو وہ سب یاد کرنے لگ گیا۔ ہاں، البتہ اپنی پہچان بھول چکا تھا اور وہ اس لئے تھا کہ اسے Dissociative Fugue ہو گیا تھا۔ جس میں اسے اپنے بارے میں سب کچھ بھول گیا، اپنی پہچان بھی، اپنا نام بھی۔

اگر اس طرح میں بحث کرتا چلا گیا تو یہ تبصرہ کافی طوالت اختیار کر جائے گا۔ مگر اس ناول میں اتنا کچھ کھپا ہوا ہے کہ وہ شاید پھر بھی مکمل نہ ہو۔ خیر تبصرے کو غالب کے اس شعر سے ختم کرتا ہوں جس سے ناول کا عنوان اخذ ہے۔

ہے غیبِ غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوزجو جاگے ہیں خواب میں

آپ جب ناول پڑھیں گے تو پتا چل جائے گا کہ خواب کیا ہے اور کیا نہیں۔