Get Alerts

انجم سلیمی کے اندر جلتا الاؤ جو انہیں لکھنے کی جانب مائل کرتا ہے

انجم سلیمی کے اندر جلتا الاؤ جو انہیں لکھنے کی جانب مائل کرتا ہے
انجم سلیمی کا شمار ان چند شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے پاکستان کے ساتھ ساتھ سرحد کے اس پار یعنی بھارت میں بھی شہرت پائی۔ انجم سلیمی نے 10 اکتوبر 1963 کو لائل پور (فیصل آباد) میں ایک کاروباری گھرانے میں آنکھ کھولی۔ گو ان کے ایک چچا کو شاعری سے شغف تھا لیکن ان کے گھر کا ماحول ادب کیلئے سازگار نہ تھا۔ انجم سلیمی کی پہلی تحریر بچوں کے ایک رسالے میں چھپی۔ گذشتہ ادوار میں شاعر اکثر اپنے سینیئر شعرا سے "اصلاح" لیتے تھے لیکن انجم سلیمی نے شاعری کیلئے کسی کی "اصلاح" نہیں لی۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے حلقہ ارباب ذوق فیصل آباد کی محفلوں میں شرکت کر کے بہت کچھ سیکھا۔ ستر کی دہائی میں پاکستانی معاشرے کی طرح لکھاری بھی تقسیم کا شکار تھے۔ لکھاری نظریاتی بنیادوں پر تقسیم ہوا کرتے تھے۔

ان کی تصانیف میں سوکھے اتھرو(1980)، سنتاپ (1996)، ایک قدیم خیال کی نگرانی میں (2005) اور دیگر کتب شامل ہیں۔ انجم کا کہنا ہے کہ شاعری بذات خود سامراجی، کمیونسٹ، مزاحمتی، انقلابی، مذہبی، علاقائی یامسلکی نہیں ہوا کرتی۔ شاعری تو محض شاعری ہے یا پھرنہیں ہے۔ شاعری پر کسی ایک نظریے کا لیبل تھوپنا ان نظریاتی تحریکوں کا نتیجہ ہے جو شاعری کو قربان کر کے اپنے غیر ادبی مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ شاعری دراصل شعرا سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو خوبصورتی، مجبت، امن اور سچائی کے زاویوں سے دیکھیں۔ اس لئے شاعری مختلف حصوں میں تقسیم نہیں کی جا سکتی۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ ان سطحی اور وقتی غیر ادبی تحاریک کی حوصلہ شکنی کی جائے۔



آپ کس سے متاثر ہو کر شاعری کرتے ہیں؟

انجم سلیمی: اپنے اندر کے جہنم سے۔ ایک باشعور اور حساس انسان معاشرے کے اس جہنم سے نجات نہیں پا سکتا جس میں ہم رہتے ہیں۔ میری تخلیق کا مقصد انسانوں کو ان کے فطری رنگ روپ میں دیکھنا ہے۔ پیار، خوبصورتی، اچھے لوگ، خوبصورت پرندے اور اچھے موسم مجھے اداس کرتے ہیں۔ یہ میری شاعری کا ذریعہ ہے۔ مکمل، اور ادھورا پن جو مجھے تخلیق کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

کیا آپ اپنی پنجابی شاعری پر تبصرہ کرنا چاہیں گے؟

انجم سلیمی: آپ دنیا کو مسخ کیے بنا کوئی تجربہ نہیں کر سکتے ہیں۔ میں نے اپنی پنجابی زبان کی شاعری کی کتاب "سنتاپ" میں کامیاب اور ناکامیاب تجربے کیے ہیں۔ میں ادبی نقادوں سے کسی قسم کے رحم کا طالب نہیں ہوں۔ ادبی نقادوں کا کام ہی جانچنے کا ہوتا ہے۔ میں نے پنجابی زبان کو پرانی روش اور انداز سے آزاد کروانے کی کوشش کی ہے۔ شاعر کو نئے مفہوم دینا چاہئیں اور اسے نئے انداز بیاں دریافت کرنے چاہئیں۔



ادبی افراد گروہوں میں تقسیم ہیں؟

انجم سلیمی: یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے ادب سے تعلق رکھنے والوں کے اپنے اپنے گروہ موجود ہوں کیونکہ اختلاف نئے سوالات کو جنم دیتا ہے اور بحث کیلئے نئی جہتیں دریافت کرتا ہے۔ بدقسمتی سے مباحثہ نہیں ہو رہا۔ نئے سوالات اور مسائل کے بارے میں ادبی حلقوں میں گفتگو کی جاتی ہے۔ سنجیدہ اور اصلی لکھاری ادبی فرقہ واریت کا حصہ نہیں ہیں۔ تخلیق وقت کا انتظار کرتی ہے اور ایک مخصوص وقت میں وجود میں آتی ہے۔ لکھاری اسی وقت کا انتظار کرتا ہے۔

آپ ایسا نہیں سمجھتے کہ الیکٹرانک میڈیا نے مطالعے کے رجحان کو ختم کر دیا ہے؟

انجم سلیمی: میرا نہیں خیال کہ اس نے کوئی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ پراپیگینڈہ البتہ اب بہت پھیلتا ہے اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس نے گھر کا سکون برباد کر دیا ہے۔ ڈش اینٹینا آپ کو سوچ کیلئے تخیل فراہم نہیں کرتا۔ بستر میں لیٹ کر کتابیں پڑھنے کا ایک اپنا ہی مزہ تھا۔ کتاب بینی صرف اس صورت میں متاثر ہو گی اگر ٹوی وی پر سنجیدہ موضوعات پر مبنی فلمیں دکھائی جائیں گی۔

کیا آپ کتابوں کی قیمتیں زیادہ ہونے پر اپنی رائے دینا پسند کریں گے؟

انجم سلیمی: یہ آپ کی قوت خرید کی استطاعت پر منحصر ہے۔ کوئی 500 روپے کی قیمت والی کتاب بھی خرید سکتا ہے اور کسی کے پاس 20 روپے والی کتاب خریدنے کے پیسے موجود نہیں ہو سکتے ہیں۔



آپ لکھاری ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ناشر بھی ہیں۔ کیا آپ اس پر تبصرہ کریں گے؟

انجم سلیمی: ناشروں نے کتابوں کو پرکشش بنانے کیلئے اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہاں اصل ناشروں کی کمی ہے۔ بہت سے ناشر دراصل محض چھپائی کرنے والے ہیں۔ صرف وہ ناشر یاد رکھے جائیں گے جنہوں نے لکھاری، کتاب اور کتب بین کے درمیان ایک پل کا کام انجام دیا۔

آپ بھارت بھی جاتے رہتے ہیں۔ کیا آپ اپنے تجربے سے ہمیں آگاہ کریں گے؟

انجم سلیمی: بھارت میں افسانوں، ادبی تنقید نگاری میں اچھا کام کیا گیا ہے اور اچھی شاعری بھی تخلیق کی گئی ہے۔ وہ لوگ اچھے نغمے تو بنا رہے ہیں لیکن نظم اور غزل کی صنفوں کی وہاں کمی ہے۔ گانے وہاں فلموں اور مذہب کے باعث مقبول ہیں۔ مشرقی پنجاب میں شاعری سروں میں پڑھی جاتی ہے۔ اور ترنم کے باعث اچھی شاعری تخلیق نہیں ہو پاتی۔ اچھی شاعری گانوں میں نہیں بلکہ کتابوں میں ملتی ہے اور یہ صرف کتابوں میں ہی محفوظ رہ سکتی ہے۔

کیا آپ کسی سے "اصلاح" لیتے رہے ہیں؟

انجم سلیمی: نہیں میں نے روایتی "اصلاح" کسی سے حاصل نہیں کی۔ میں اپنے دوستوں سے مشاورت کرتا رہتا ہوں۔ میں ابھی بھی سیکھنے کے مرحلے میں ہوں۔ یہ کبھی بھی ختم نہ ہونے والا مرحلہ ہے۔

آپ نے پہلے نظم تحریر کی یا غزل؟

انجم سلیمی: میں نے غزلوں کے ساتھ ابتدا کی تھی اور پھر نظمیں لکھنا شروع کیں جو زیادہ تر پنجابی زبان میں ہیں۔ بعد میں میں نے نثری نظمیں لکھنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔ میرے خیال میں یہ سب سے مشکل صنف ہے۔



آپ نے نثری نظمیں لکھنا کیوں شروع کیں ؟

انجم سلیمی: اس لئے کہ آج کے دور کے مسائل کو اس انداز میں پیش کر سکوں جسے سمجھنا لوگوں کیلئے سہل ہو۔ غزل مختلف صنف ہے کیونکہ اس میں آپ کو مختلف خیالات اور مختلف الفاظ استعمال کرنا ہوتے ہیں۔ نظموں میں آپ کے پاس بات کہنے کا وسیع اور ان گنت اختیار ہوتا ہے۔

ایک شاعر یا لکھاری کا کردار کیا ہونا چاہیے؟ 

انجم سلیمی: کسی بھی لکھاری کا مقصد سچ کی جستجو ہوتا ہے۔ ہر انسان کو آدھا سچ معلوم ہوتا ہے، پورا سچ کسی کو معلوم نہیں۔ پورے سچ کو جان لینے کی جستجو لکھاری کو لکھنے پر آمادہ کرتی رہتی ہے۔

کیا کسی کتاب یا شاعر نے آپ کو متاثر کیا؟

انجم سلیمی: بہت سی کتابوں اور شاعروں نے مجھے متاثر کیا۔ لیکن 80 کی دہائی کے نوجوان شعرا اور لکھاری مجھے بہت حیران کرتے ہیں۔ اس نسل سے میرے کئی دوست تھے۔

آپ نے ایک ادبی رسالے کے اجرا کا فیصلہ کیوں کیا؟ 

انجم سلیمی: اس لئے کہ فیصل آباد کے لکھاریوں کو قومی جرائد میں جگہ نہیں ملتی تھی۔ میں نے سوچا کہ فیصل آباد کا اپنا مقامی جریدہ ہونا چاہیے جو اس علاقے کے شعرا اور لکھاریوں کی نمائندگی کرے۔ یہ میرا مقصد تھا۔ خوش قسمتی سے یہ یہاں اور بیرون ملک بھی بیحد مقبول ہے۔

(یہ انٹرویو دی ہیرلڈ میں شائع ہوا)۔