'حکومت نے خود کو غیر جانبدار بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا جس کے باعث ایک عجیب و غریب اور پیچیدہ صورت حال پیدا ہو گئی اور علیحدگی پسند رویوں کو تقویت ملی ہے۔ یہ ایک منفرد قسم کا جی ایچ کیو تھا جس کی اپنی سیاسی غیر موجودگی کی وجہ سے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ایک خلا پیدا ہو چکا تھا۔'
اگر آپ یہ سمجھے ہیں کہ درج بالا پیراگراف آج کل کی سیاسی صورت حال پر ایک تبصرہ ہے تو یہ بے جا نہ ہو گا، خصوصاً جبکہ نیوٹرل یا غیر جانبدار کا لفظ پچھلے7 سے 8 ماہ میں سیاسی مباحثوں میں غالب رہا ہے۔
مندرجہ بالا پیراگراف میں درحقیقت لفظ مارشل لاء ایڈمنسٹریشن کے الفاظ کی بجائے جی ایچ کیو لکھ دیا گیا ہے جو کہ بریگیڈیئر اے آر صدیقی کی کتاب East Pakistan The End Game: An Onlooker’s Journal 1969-1971 سے لیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ کتاب متحدہ پاکستان کے آخری 7 ماہ کے ان تکلیف دہ حالات کا احاطہ کرتی ہے جن میں یحییٰ خان نے غرور، تنگ نظری اور بدقسمتی سے بھرپور آپریشن سرچ لائٹ کو شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ کتاب کا مفہوم موجودہ حالات سے بھی مطابقت رکھتا ہے۔
یہ ایک انتہائی تکلیف دہ امر ہے کہ آدھی صدی گزرنے کے بعد بھی فوجی ذہنیت اور رجحان کے غلبے نے ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس سے بھی تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس میں ذرہ برابر تبدیلی نہیں آئی۔ یہ بہت سارے سوالوں کو جنم دیتا ہے مثلاً کیا ہمارے سیاست دان سیاسی اداروں کو فوج کے غلبے سے بچا کر مضبوط کر پائے ہیں اور کیا نئے اور پرانے دور کے سیاست دانوں کی ایک کثیر تعداد سمجھتی ہے کہ فوج کی کھلم کھلا یا ڈھکی چھپی آشیر باد کے بغیر سیاست میں کامیابی ممکن ہے؟
پاکستان کی سیاسی تاریخ کے تناظر میں فوج نے بار ہا سیاسی دھارے سے کنارہ کشی کے اعلانات کئے ہیں، لیکن چند سنکی مزاج لوگوں کے مطابق یہ اعلانات ہمیشہ سے ایک نئی منصوبہ بندی کے ساتھ میدان میں اترنے کا ایک بہانہ تھا لیکن اسی مقصد کے تحت فوج کا مطمع نظر نظام کو صاف کر کے آزاد اورغیر جانبدارانہ الیکشن کے لیے ایک سازگار ماحول کو پیدا کرنا مقصود رہا ہے۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ جنرل (ر) باجوہ ملک کو انتشار سے نکال کر اقتصادی اور سیاسی استحکام کی طرف لے جانے کے لیے ایک اور توسیع لینا چاہتے تھے جبکہ یہ انتشار انہوں نے اور ان کے ساتھی جرنیلوں نے مل کر ایک بڑی منصوبہ بندی کے تحت اسی طرح کے نتائج حاصل کرنے کے لئے خود ہی اس ملک پر مسلط کیا تھا۔
اگر پالیسی میں تبدیلی کو منطقی اور حقیقت پسندانہ تناظر میں پرکھا جائے تو فوج کی اعلیٰ قیادت کا سیاسی عمل میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ 1969 کے جی ایچ کیو کے سینئر افسران کی گفتگو سے ملتا جلتا ہے جس میں وہ فوج کو غیر سیاسی اور غیر جانبدار بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ مثال کے طور پر مذکورہ بالا کتاب یحییٰ خان کے پرنسپل سٹاف آفیسر جنرل پیر زادہ جو ایک فرض شناس اور پیشہ ور فوجی ہونے کے ناطے صدر یحییٰ کا پیغام سنایا کرتے تھے کہ وہ آزادانہ اور شفاف انتخابات کروانے آئے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے باس کے سیاست کی طرف مائل ہونے اور اپنے لئے ایک سیاسی کردار منتخب کرنے کی خواہش کا بالواسطہ طور پر احترام بھی کرتے تھے۔
مذکورہ بالا کتاب یحییٰ خان کے بیانات کا بین السطور تجزیہ کرتی ہے کہ آیا جنرل صاحب نے اس سیاسی بحران میں کتنا حصہ ڈالا جو 1969 میں شروع ہوا تھا۔ ایک بات جو شکوک و شبہات کے بغیر کہی جا سکتی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جنرل یحییٰ کے لامحدود اختیارات اتنے بڑھ چکے تھے کہ وہ اپنے آپ کو نظام کے لئے ناگزیر سمجھنے کے زعم میں گرفتار ہو چکے تھے۔ ہو بہو یہی دلیل جنرل باجوہ کے اوپر بھی صادق آتی ہے۔
1971 کے سیاسی بحران کے برعکس جو کہ فطری طور پر شدت اختیار کرتا گیا تھا، جبکہ حالیہ بحران میں جنرل باجوہ کے اعتماد کی وجہ ان کے ماتحت افسروں کی نظام میں جوڑ تور کرنے کی لامتناہی طاقت تھی۔
ان دونوں واقعات میں دیدہ دلیری اور بلا خوف و خطر سیاست دانوں کے لیے نفرت اور ایک غلط نظریہ پایا جاتا ہے کہ فوج سب سے زیادہ سمجھ بوجھ رکھنے والا ادارہ ہے۔ ان سب چیزوں نے 1971 سے فوج کو ناگزیر ہونے کے زعم میں مبتلا کر رکھا ہے۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جنرل (ر) باجوہ نے 2016 میں آرمی چیف تعینات ہوتے ہی 'باجوہ ڈاکٹرائن' کو نظام پر غلبہ پانے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا جس کا نقصان یہ ہوا کہ اقتصادی اور سیاسی استحکام جاتا رہا۔ اس سے وہ آہستہ آہستہ اس طاقتور پوزیشن میں آ گئے کہ اپنے لیے ایک اور ایکسٹینشن کا تقاضا کرسکیں۔ حالانکہ ان کا تجربہ ملک کو چلانے کا کم اور ملک کا ستیاناس کرنے کا زیادہ رہا۔
جنرل باجوہ کو اپنے ڈاکٹرائن کو لاگو کرنے کے لئے ایسے سیاست دانوں کی کمی کبھی بھی محسوس نہیں ہوئی جو کہ ان کے لیے پیادوں کا کام کرتے رہیں۔ اس کی زندہ مثال 2018 سے عمران خان اور ان کی پارٹی تحریک انصاف اور بعد ازاں اپریل 2022 سے اب تک پی ڈی ایم اور مستقبل میں بھی مزید سیاست دانوں کا پیادہ بننے کا عمل جاری رہنے کا قوی امکان ہے۔
یحییٰ خان کا مخصوص حلیہ اس کے لال سرخ چہرے اور گھنی بھنوؤں پر مشتمل کہا جا سکتا ہے اور وہ سیاست دانوں کو حقارت سے مسخروں سے تشبیہ دیا کرتا تھا۔
1971 اور آج کی فوجی ذہنیت میں بہت حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ یحییٰ خان نے ایک مرتبہ عبدالحمید بھاشانی کو کہا کہ میں تو ایک سیدھا سادا فوجی ہوں، آپ شیخ مجیب الرحمان سے بات کیوں نہیں کرتے، میں اس بارے میں کیا کر سکتا ہوں۔ یحییٰ خان کی غیر سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک تقریر جو کو اس نے اپنے بلوچ رجمنٹ کے دوستوں کے سامنے کی اور مولانا بھاشانی کی نقل کر کے اور تمسخر اڑا کر اپنے ساتھی افسروں کو کافی محظوظ اور لوٹ پوٹ کیا۔
جنرل باجوہ عمران خان کو یہ کہتے رہے کہ ان کا ادارہ اب نیوٹرل ہو چکا ہے لیکن ساتھ ساتھ وہ پس پردہ جوڑ توڑ اور دھونس دھاندلی کے ذریعے سے اس قانون کے تحت جو کہ ان کی ذاتی نگرانی میں بنایا گیا، ایک اور توسیع لینے کی کوشش بھی کرتے رہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ان کا یہ رویہ یحییٰ خان کی دوغلی پالیسی سے بہت حد تک مماثلت رکھتا ہے۔
یحییٰ خان نے مذکورہ بالا تقریب کے دوران ملک کو بھیڑیوں کے سامنے پھیکننے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ فوج کو مزید 14 سال تک حکومت کرنا ہو گی اور وہ اس کے بعد اقتدار سب سے سینئر کمانڈر کے حوالے کرنا چاہیں گے۔
ان کا یہ بیان آج کل کے تناظر میں بہت حیران کن تصور کیا جا سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ 1971 کے بعد سب سے بڑی تبدیلی جو کہ فوج کی اعلیٰ قیادت کے فیصلے کے باعث عمل میں لائی گئی ہے کہ اب وہ بلاواسطہ مارشل لاء نہیں لگانا چاہیں گے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ مارشل لاء کا متبادل عمل جو کہ پس پردہ جوڑ توڑ اور دھاندلی پر مشتمل ہے، آج بھی زور شور سے جاری ہے۔
یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اصل مسئلہ فوج کا ایسے شہریوں کی تلاش ہے جو کہ ان کو ہمیشہ دستیاب ہوتے ہیں تا کہ وہ اقتدار اور تیزی سے سکڑتے ہوئے قومی وسائل پر اپنا تسلط قائم رکھ سکیں۔ ان کے اس غلبے کے تسلسل کو جاری رکھنے کے لیے ان کے سویلین اتحادی ہمیشہ چند ٹکڑوں کی خاطر یہ کام کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کے غلبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک احمد خان، پرویز الہیٰ اور مونس الہیٰ جیسے ذہین اور منجھے ہوئے سیاست دان کس سرعت کے ساتھ باجوہ صاحب کے دفاع پر اتر آئے۔ اور تو اور جاوید چودھری جیسے تجربہ کار اینکرپرسن نے بھی کئی کالم باجوہ صاحب کی مدح سرائی میں لکھ ڈالے اور یہ سب اس لیے کیا گیا کہ مستقبل کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ روابط برقراررکھنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔
جو عنصر شاید 1971 کے بحران میں موجود نہیں تھا اور جو کہ 2023 میں پاکستان کے سنگین ترین مسائل میں سے ایک ہے، وہ اس کی کمزور اور بدحال معیشت ہے۔ پاکستانی شہری دہایئوں سے اس جانے پہچانے گھن چکر کو دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں لیکن تاریخ میں پہلی بار یہ لگ رہا ہے کہ ملک کی حالت ایک ایسی موٹر کار جیسی ہو گئی ہے جو کہ انجن آئل کے چند قطروں پر ہی برق رفتاری سے رواں دواں ہے۔
اس طرح کی صورت حال میں اس گاڑی کو گرم ہو کر ہمیشہ کے لئے رک جانے میں کتنا وقت لگے گا؟
طارق بشیر کا یہ مضمون Daily Dawn میں شائع ہوا ہے۔