'خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی ممبران کہتے ہیں عمران خان نے کارکنان کو تھکا دیا ہے'

'خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی ممبران کہتے ہیں عمران خان نے کارکنان کو تھکا دیا ہے'
خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت اور اراکین اسمبلی استعفوں پر خوش نہیں ہیں۔ یہ بھی تاثر تھا کہ کے پی کے کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے عمران خان شاید استعفوں کا فیصلہ واپس لے لیں گے۔ پرویز خٹک نے بھی کہا تھا کہ اس کو مؤخر کر لیں مگر عمران خان نہیں مانے۔ تحریک انصاف کا نچلی سطح پر عوام کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں اور انہوں نے کام بھی نہیں کروائے۔ تحریک انصاف کے اراکین کہتے ہیں کہ عمران خان نے کارکنان کو تھکا دیا ہے، الیکشن میں لوگوں کو نکالنا اور ان کو ٹرانسپورٹ مہیا کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ یہ کہنا ہے خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے صحافی اسماعیل خان کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے اسماعیل خان نے کہا کہ سننے میں آ رہا ہے کہ آج کل عمران خان فواد چودھری کی بہت سن رہے ہیں اور مان رہے ہیں۔ عمران خان کو کہا گیا تھا کہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کو ایک ساتھ تحلیل نہ کریں، ایک محفوظ مقام کو برقرار رکھنے کے لیے کے پی کے اسمبلی کو اپنے پاس رکھنا چاہئیے۔ کے پی کے حکومت کے سابق وزرا کے مطابق ان کی ہر گزارش کے جواب میں عمران خان فواد چودھری کی باتوں پر عمل کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اے این پی سمجھتی ہے کہ 2018 میں دہشت گردوں کی دھمکیوں کی وجہ سے وہ انتخابی مہم بھی نہیں چلا سکے تھے اور پھر دھاندلی کے ذریعے انہیں ہروایا گیا تھا۔ مولانا فضل الرحمان بھی کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کے پی کے میں تحریک انصاف کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کے مقابلے میں جے یو آئی اور اے این پی کی مقبولیت میں اس قدر اضافہ نہیں ہوا۔ اے این پی اس وقت پی ڈی ایم میں ہے بھی اور نہیں بھی، وہ دوسری کسی پارٹی کے ساتھ الحاق کر کے اپنی سیٹیں بڑھا سکتی ہے۔

سینئر صحافی مظہر عباس نے کہا کہ نئے آرمی چیف کے ساتھ عمران خان کا ریلیشن شپ نہ ہونا مثبت بات ہے، شرط یہ ہے کہ آرمی چیف کا باقی سیاسی لوگوں سے بھی رابطہ نہ ہو۔ پاکستان کی اقتصادی صورت حال خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے، اقتصادی صورت حال سیاسی حالات پر غالب آ جائے گی۔ سیاسی رہنما ان معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ سیاسی جماعتوں میں معاشی اتفاق پیدا نہیں ہو رہا۔ ملک کی اقتصادی صورت حال اگلے چند ہفتوں میں سیاست پر گہرا اثر ڈالے گی۔

انہوں نے کہا (ن) لیگ کے اندر مسائل چل رہے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق بھی پھٹنے والے ہیں، شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کی بھی یہی صورت حال ہے۔ یہ سب کچھ مریم نواز کو پارٹی میں اعلیٰ عہدے دینے کے ردعمل کے طور ہو رہا ہے۔ میاں صاحب واپس نہیں آ رہے اور مریم نواز واپس آ کر تقسیم شدہ پارٹی کے معاملات کو کس طرح سنبھالیں گی اور اس پر شہباز شریف اور حمزہ شہباز کا کیا ردعمل ہو گا، یہ اہم سوال ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت الیکشن ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ پی ڈی ایم نے عمران خان کے ہاتھوں بلیک میل نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ صوبوں میں الیکشن کی صورت میں عمران خان کو دونوں صوبوں میں کامیابی نہ ملی تو یہ استعفے ان کے لیے خطرناک جوا ثابت ہوں گے اور قومی اسمبلی کے الیکشن پر اس کا اثر پڑے گا۔ اگر جیت گئے تو قومی اسمبلی کے الیکشن میں انہیں نفسیاتی برتری حاصل ہو گی اور اس سے پی ڈی ایم اور بالخصوص (ن) لیگ کو نقصان پہنچے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے الیکشن میں پی ٹی آئی کو ان کی مقبولیت کے مقابلے میں کم سیٹیں ملی ہیں۔ تحریک انصاف کے ووٹر کا نہ نکلنا اور ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کا جماعت اسلامی کو فائدہ پہنچا ہے۔ کراچی کی میئرشپ پیپلزپارٹی جماعت اسلامی کو دے سکتی ہے اور اس کے بدلے میں ٹاؤن کمیٹیز میں زیادہ حصہ لے سکتی ہے۔ تحریک انصاف اور عمران خان اپنے ووٹرز کو باہر نہیں نکال سکے، اس الیکشن میں تحریک انصاف کی تنظیم سازی کمزور اور ناکام رہی ہے۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ ‘خبر سے آگے’ ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔