سپریم کورٹ کے فیصلے پر اس وقت جو تبصرے کیے جا رہے ہیں ان سے ایسا تاثر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ گویا پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت سے اس کا نشان چھین کر ووٹرز کو حق رائے دہی سے محروم کر دیا گیا ہے۔ یہ بات کافی حد تک ٹھیک ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس کا اصل ذمہ دار کون ہے یا سپریم کورٹ کے فیصلے میں آئین و قانون کی کوئی خلاف ورزی ہوئی ہے یا نہیں۔
سپریم کورٹ کے کئی ایسے کورٹ رپورٹرز جو غیر جانبدار ماضی رکھتے ہیں وہ بھی اس فیصلے پر تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کی اس تنقید کی بنیاد عوامی تاثر کو بنایا جا رہا ہے کہ اس سے قاضی فائز عیسیٰ کے بارے عوام کی سوچ پر برے اثرات پڑیں گے اور اسے پری الیکشن رگنگ کہہ کر ثاقب نثار کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے جسے میں درست نہیں سمجھتا۔ اس لئے کہ عدالتیں انصاف کرتے ہوئے عوامی پرسیپشن کو یا سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کو نہیں دیکھا کرتیں بلکہ آئین و قانون کو دیکھنا ہوتا ہے جس کی پاسداری کا انہوں نے حلف اٹھایا ہوتا ہے۔
رہی یہ بات کہ ان کے خلاف عوامی رائے خراب ہو گی تو ججز کو اس بات کا خیال قطعاً نہیں رکھنا ہوتا۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ اگر کسی کے حق میں فیصلہ آ جائے تو وہ تعریف کرتا ہے اور اگر خلاف آ جائے تو تنقید شروع کر دی جاتی ہے جس کا تعلق ہماری اخلاقیات سے ہے۔ کیا پی ٹی آئی اس فیصلے سے پہلے جسٹس فائز عیسیٰ کی سوشل میڈیا پر ٹرولنگ نہیں کر رہی تھی؟ اگر وہ آئین و قانون کو نظرانداز کرتے ہوئے فیصلہ ان کے حق میں دے دیتے تو کیا یہ نہ کہا جاتا کہ انہوں نے دباؤ میں آ کر فیصلہ دیا ہے اور اس پر تنقید نہ ہوتی؟ پبلک پرسیپشن اور تنقید کو کبھی بھی عدل کا معیار نہیں بنایا جا سکتا۔ اس کی کوئی ضمانت دے سکتا ہے اور نا ہی اس سے مشروط فیصلے دیے جا سکتے ہیں۔
یہ ایک مصمم اصول ہے کہ ججز کو کبھی بھی کسی دباؤ میں آ کر فیصلے نہیں کرنے چاہئیں، خواہ دباؤ عوامی ہو یا کسی اور کی طرف سے۔ اگر موجودہ صورت حال میں سپریم کورٹ پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دے دیتی تو اس سے ایک بہت ہی خطرناک تاثر پیدا ہوتا جس سے نا صرف ان کی ذات کی رسوائی ہوتی بلکہ پورے ادارے کی بھی بدنامی ہوتی اور اس سے عدلیہ متنازعہ ہو جاتی جیسا کہ ماضی کے فیصلوں میں ہوتا رہا ہے۔ عدالتوں کو اپنے فیصلوں کے اندر آئین و قانون، اس کی تشریحات اور ان کی بنیاد پر ماضی میں کئے گئے فیصلوں کے درمیان ایک ہم آہنگی رکھتے ہوئے فیصلے کرنے ہوتے ہیں تا کہ صرف انصاف ہو ہی نہ بلکہ ہوتا ہوا دکھائی بھی دے۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
عوامی پرسیپشن میں جہاں ایک جماعت اس پر تنقید کرے گی تو وہاں بہت ساری سیاسی جماعتوں کے قائدین، کارکن اور عوام اس پر اعتماد کا اظہار بھی کر رہے ہوں گے جس کی بنیاد وہ آئینی و قانونی پہلو ہوں گے جن کا اعتراف خود پی ٹی آئی کے وکلا اور کارکنان بھی کر رہے ہیں کہ انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد میں ان سے غلطیاں ہوئی ہیں لیکن ان کا مؤقف یہ ہے کہ اس کی اتنی بڑی سزا نہیں دی جانی چاہیے تھی۔
اگر غلطیاں ان کی ہیں اور اس پر فیصلہ الیکشن کمیشن نے اسی جماعت کے عہدیداران کی درخواستوں پر کیا ہے جن کا مؤقف یہ ہے کہ ان کو ان کے بنیادی حق رائے دہی اور قیادت کے حق سے محروم کیا گیا ہے تو پھر اس کا سارا ملبہ سپریم کورٹ پر کیسے ڈالا جا سکتا ہے؟ سپریم کورٹ سے یہ امید وابستہ کرنا کہ وہ سیاسی جماعت کی غلطیوں کی سزا آئینی و قانونی پہلوؤں کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک آئینی ادارے الیکشن کمیشن کو رسوائی اور حوصلہ شکنی کی صورت میں دیتے ہوئے کسی جماعت کو سہولت فراہم کرے تو یہ سوچ ٹھیک نہیں۔
کیا ایسا فیصلہ ایک آئینی ادارے کو اپنے اختیارات کے استعمال میں پابند اور ان میں دخل اندازی شمار نہ ہوتا اور اس سے الیکشن کمیشن کے صحیح اقدامات پر ان کو تنقید کا نشانہ بنا کر ان لوگوں کے مؤقف کو تائید نہ ملتی جو پہلے ہی ان پر جابنداری کے الزامات لگا رہے تھے اور اس سے الیکشن کمیشن کی آئینی رٹ بھی متاثر نہ ہوتی؟
حیرت ہوتی ہے ایسے مدبروں کی سوچ پر جو آئین و قانون اور انصاف کے اصولی تقاضوں کو نظرانداز کر کے بھی سہولت فراہم کرنے کا مؤقف رکھتے ہیں جن کا ججز چاہیں بھی تو اختیار نہیں رکھتے۔ کیا الیکشن کمیشن نے جو استدعا کی تھی یا جو ایشوز اٹھائے تھے ان پر سپریم کورٹ اپنی فائنڈنگز دینے کی اصولی طور پر پابند نہیں تھی؟ جن ایشوز پر عدالت میں ڈیبیٹ ہوئی جن میں الیکشن کمیشن کے اختیارات کی آئینی و قانونی حیثیت اور دو برابر درجہ رکھنے والی عدالتوں سے رجوع کرنے کا اصول جس کے تحت تحریک انصاف کو حق پہنچتا تھا کہ وہ کسی بھی ہائیکورٹ میں جا سکتے تھے لیکن ایک دفعہ ایک عدالت میں چلے جانے کے بعد وہ اصولاً پابند تھے کہ وہ اس مقدمے کے وہاں سب جیوڈس ہوتے ہوئے کسی دوسری ہائیکورٹ میں نہ جاتے، جس پر دونوں اطراف سے آرگیو کیا گیا، جس کی تحریک انصاف نے خلاف ورزی ہی نہیں کی بلکہ اس کو پشاور ہائیکورٹ سے چھپایا بھی گیا۔ جہاں تک الیکشن کمیشن کے اختیارات کی بات ہے سیکشن 215 (5) آف پارٹیز ایکٹ 2017 کے تحت الیکشن کمیشن انتخابی نشانی واپس لینے کا اختیار رکھتا ہے۔
کیا ان سب آئینی و قانونی نکات کو عدالت عوامی پرسیپشن پر قربان کر دیتی اور اپنے لئے اور ہائی کورٹس کے لئے انصاف کے عمل میں مسائل پیدا کر لیتی؟ اگر ایسا ہوتا تو اس فعل کو قانونی حلقوں میں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا بلکہ مستقبل میں عدالتوں کو اپنی غلیطوں کا اعتراف کرتے ہوئے اصلاح کے عمل سے گزرنا پڑتا۔ جب موجودہ ججز خود اصلاح کی راہ پر گامزن ہیں تو وہ اس طرح کی غلطیوں کے مرتکب کیسے ہو سکتے تھے؟
یہ فیصلہ تینوں ججز نے متفقہ طور پر دیا ہے اور سپریم کورٹ کے تمام ججز اپنے عہدے اور اختیارات میں برابر ہیں۔ یوں ایک متفقہ فیصلہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ فیصلہ ایک مضبوط فیصلہ ہے جس پر تنقید کا نشانہ محض قاضی فائز عیسیٰ کو بنانا بھی انصاف اور دانش کے تقاضوں کے برعکس ہے۔ سپریم کورٹ کیسے قانونی اور سیاسی جماعت کے اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کی خلاف ورزی اور ایک آئینی ادارے کے اختیارات کو محض عوامی پرسیپشن کی بنیاد پر نظرانداز کر سکتی ہے؟
دوسری جماعتوں کے ماضی میں کروائے گئے انٹرا پارٹی انتخابات پر استدلال اس کا جواز فراہم نہیں کر سکتے کیونکہ ان کو یہاں ہی نہیں کیا گیا تھا۔ ان سیاسی جماعتوں کے کسی عہدیدار نے ماضی میں کوئی ایسا چیلنج کیا کہ ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور نا ہی اس مقدمے میں ان کا مؤقف لیا گیا تھا۔ بلکہ اس کی موجودہ ایشوز سے غیر مطابقت اور بنیادی فرق کی الیکشن کمیشن وضاحت پیش کر چکا تھا۔
جو لوگ سپریم کورٹ پر بے جا تنقید کر رہے ہیں ان کو پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے میں آئینی و قانونی پہلوؤں پر بھی غور کرنا چاہیے کہ انہوں نے کس طرح تحریک انصاف کو ایک آئینی ادارے کے اختیارت کو پابند کرتے ہوئے فیصلہ دیا اور اس بارے تحریک انصاف کے دوستوں کو بھی تبصرے کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا کہ سپریم کورٹ میں اس فیصلے کو قائم نہیں رکھا جا سکے گا اور تاریخ یہ ثابت کرے گی کہ یہ فیصلہ ٹھیک کیا گیا ہے۔
جو لوگ انتخابی نشان کو جمہوریت سے جوڑ کر اسے عوام کے آئینی حق رائے دہی کی خلاف ورزی کہہ رہے ہیں ان کو پارٹی کے اندر جمہوریت کی اہمیت کا بھی خیال رکھنا چاہیے جو جمہوریت کی اصل بنیاد ہے جس پر جمہوری طاقت قائم ہوتی ہے۔ اس لیے بجائے اس کے کہ اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے اس کو جمہوری ضرورت سمجھتے ہوئے سب سیاسی جماعتوں کو بھی مجبور کیا جانا چاہیے کہ وہ بھی اپنے انٹرا پارٹی انتخابات کروائیں اور اپنی جماعتوں کے اندر جمہوریت لائیں۔
کچھ تجزیہ کاروں کا مؤقف ہے کہ آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت پی ٹی آئی کو اسمبلی کے حق سے محروم کیا گیا ہے۔ میرا ان سے سوال ہے کہ کیا آئین کے آرٹیکل 17 میں اسمبلی کا حق جس کی سب بات کر رہے ہیں اس کا استعمال کرتے ہوئے اس اسمبلی میں شمولیت کرنے والوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جا سکتا ہے؟ اگر ایسے میں اپنے حقوق سے محروم لوگ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں تو عدالت کا ان کو نظرانداز کرنا انصاف ہوگا؟
جہاں تک انسانی حقوق کی بات ہے تو ان کو عدالت اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال کر ایک فریق کے حقوق کو قربان کر کے دوسرے فریق کے حقوق کی پاسداری کا حکم صادر نہیں کر سکتی۔ جب حقوق کا دعویٰ کرنے والا خود ہی اپنی ذمہ داریوں سے فرار تلاش کرتے ہوئے دوسروں کے حقوق کی ادائیگی میں غفلت کا مرتکب ٹھہر رہا ہو تو پھر اس کی وکالت کتنی حیران کن ہو گی۔ اور یہ کہنا کہ اکبر ایس بابر یا کوئی دوسرا جماعت کا رکن اتنی اہمیت نہیں رکھتا جتنی عمران خان رکھتا ہے تو اس کا اظہار انٹرا پارٹی انتخابات کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔ بنیادی حقوق کے معاملے میں کوئی اہم اور غیر اہم نہیں ہوتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ووٹ دینے کا حق بحیثیت شہری ہر کسی کا حق ہے لیکن یہ انسانی حقوق میں شمار نہیں ہوتا اور اسمبلی کا حق اور ووٹ کا حق سبجیکٹ ٹو لا ہیں۔
لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کے عوامی پرسیپشن کی بنیاد پر تبصروں کو کسی کی ذاتی رائے کا درجہ تو دیا جا سکتا ہے یا کسی کے دل میں عوامی یا سیاسی جماعتوں کی ہمدردیوں اور خواہشات کی بنیاد پر حمایت تو کہا جا سکتا ہے لیکن انہیں انصاف پر مبنی تبصروں کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ اصول کسی کی حمایت یا ہمدردی کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتے بلکہ انصاف کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہیں۔
ان تبصروں میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ججز کو ایک بڑی سیاسی جماعت کو نقصان سے بچانے اور عوامی پرسیپشن کو ٹھیک رکھنے کے لئے کوئی درمیانی راہ نکالنی چاہیے تھی جو انتہائی غیر موزوں بات ہے۔ عدالتیں آربیٹریٹرز نہیں ہوتیں بلکہ وہ انصاف کے ادارے ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کو آئین و قانون کے مطابق انصاف فراہم کرنا ہوتا ہے۔ ایسے ہی درمیانی راہ نکالنے والی عدالتوں کو ماضی قریب میں شید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔