یہ ضروری نہیں کہ عمران ہی جیتے گا

یہ ضروری نہیں کہ عمران ہی جیتے گا
آج یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ انتخابات عمران خان کی پارٹی جیت جائے گی؛ دلیل یہ ہے کہ اسے اسٹیبلشمنٹ کی کھلی اور غائبانہ مدد حاصل ہے۔

تاریخ میں ایسا بے شمار دفعہ ہوا کہ حکمران طبقات نے طے کچھ کیا اور ہوا کچھ اور؛ سوچا کچھ گیا تھا نتیجہ اس کے مطابق نہ آیا۔

خطے کے دیگر ممالک سے لیے جانے کے قابل سبق

ہمارے ہمسایہ ملک سری لنکا میں جب جنوری 2015 میں صدارتی انتخابات ہوئے، اس وقت کے صدر مہندر راجپکسا کو اپنی جیت کا اتنا یقین تھا کہ اس نے اپنے مقررہ وقت سے دو سال پہلے ہی یہ انتخاب کرانے کا فیصلہ کر لیا۔ تاثر یہ تھا اسے کوئی نہیں ہرا سکتا۔ پھر اپوزیشن نے ایک مشترکہ امیدوار ماتھری پالا سری سیہنا کو کھڑا کر دیا۔ راج پکسا ریاست کی تمام تر کوششوں کے باوجود سری سیہنا سے انتخاب ہار گیا۔

ابھی 9 مئی 2018 کو ہونے والے انتخابات میں اس وقت کے ملیشین وزیراعظم نجیب رزاق کو بھی اپنی جیت کا پورا یقین تھا۔ اس نے بھی کافی جابرانہ اقدامات کیے ہوئے تھے۔ اپوزیشن متحد ہو گئی اور 92 سالہ مہاتیر محمد الیکشن جیت گیا۔



یہ بالکل طے نہیں کہ عمران خان ہی جیتے گا

آج پاکستان میں عمران خان کی جیت کے لئے جو کچھ بھی ایسٹیبلشمنٹ سے ممکن تھا وہ اس نے کیا ہے، عمران کے تمام بڑے مخالفین روزانہ شکائیتیں کرتے ہیں۔ مگر یہ بالکل طے نہیں کہ عمران خان ہی جیتے گا۔

ابھی عوام نے اپنا فیصلہ دینا ہے، موڈ تیزی سے عمران کے خلاف ہو رہا ہے، عمران کے جلسے چھوٹے ہو رہے ہیں اور مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے جلسے بڑے ہو رہے ہیں۔ جو مذہبی جنونی قوتیں سامنے لائی گئی ہیں، وہ ووٹ تو توڑیں گی مگر جیتنے کی پوزیشن میں نہیں۔ یہ بھی اہم سوال ہے کہ وہ کس کے ووٹ توڑیں گی۔ ایک انتہائی رائیٹ ونگ، رائیٹ ونگ کے ہی ووٹ توڑے گا۔

مذہبی انتہا پسند جماعتیں جو ووٹ توڑیں گی، یہ ضروری نہیں کہ وہ مسلم لیگیوں کے ووٹ بینک کو نقصان پہنچائیں

پچھلے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کے خلاف کوئی کمپین نہ کی تھی۔ وہ سمجھتی رہی کہ یہ مسلم لیگ کے ووٹ توڑیں گے۔ مگر وہ پی پی پی کے ہی ووٹ توڑ گئے۔ جبکہ مسلم لیگ اپنا ووٹ بینک بڑھا گئی۔

اب مذہبی انتہا پسند جماعتیں جو ووٹ توڑیں گی، یہ ضروری نہیں کہ وہ مسلم لیگیوں کے ووٹ بینک کو نقصان پہنچائیں۔

صورتحال کافی پیچیدہ ہے۔ کچھ بھی کھل کر نہیں کہا جا سکتا۔ مگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس قدر پری پول دھاندلی آج تک کسی انتخاب میں نہ ہوئی جتنی آج ہو رہی ہے۔ اس قدر کھل کر اسٹیبلشمنٹ نے شائد ہی کسی جماعت کی اس قدر مدد کی ہو جتنی آج تحریک انصاف کو جتانے کی کی جا رہی ہے۔ مگر بوکھلاہٹ کا اظہار بھی ساتھ ساتھ ہو رہا ہے۔