"کپتان " نے پنجاب میں اپنے ' وسیم اکرم پلس' کو کرسی پر برقرار رکھنے کے لئے آخری چانس حاصل کرلیا تاہم اب نئی سیٹنگ کے مطابق عثمان بزدار کی بطور وزیراعلیٰ عہدہ پر حیثیت نمائشی ہوگی۔ جبکہ در حقیقت صوبے کو چیف سیکرٹری کی سربراہی میں سیاسی افراد اور بیوروکریٹس پر مشتمل ایک ٹیم چلائے گی۔ جسے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے خود تشکیل دیے جانے کا امکان ہے. اس کے ساتھ ہی "کپتان" نے گورنر پنجاب چوہدری سرور اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو پنجاب اسمبلی میں عددی اعتبار سے اکثریت رکھنے والی "نون" لیگ کے مزید ارکان توڑنے کا خصوصی ٹاسک بھی سونپ دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب کی تبدیلی اور عثمان بزدار کو "فارغ" کرنے کے لئے" کپتان" پر مقتدر حلقوں کے شدید دباؤ پر پی ٹی آئی میں سے ان کا متبادل ڈھونڈنے کا پراسیس اگرچہ شروع کر دیا گیا تھا اور گزشتہ ہفتہ پرائم منسٹر ہاؤس میں "مجوزہ وزرائے اعلیٰ" کے انٹرویوز بھی ہوئے جو زیادہ تر وزیراعظم کے معاون خصوصی اور "بنی گالہ اسٹیبلشمنٹ" کے کے ایک رکن جو سمندر پار پاکستانیوں کا بھی بوجھ اپنے کندھے پر رکھتے ہیں نے کنڈکٹ کیے ، اس لئے کہ وہ اپنے کزن ، اٹک سے پی ٹی آئی کے ایم پی اے وزیراعلیٰ کی کرسی پر بٹھوانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جبکہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے محسن لغاری کا انٹرویو (وزیراعظم سے ملاقات) وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کروائی جن کے محسن لغاری کے ساتھ بہت قریبی ذاتی دوستانہ مراسم بتائے جاتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ انٹرویو (ملاقات) کرنے والے پی ٹی آئی کے دیگر اراکین پنجاب اسمبلی میں علیم خان ، میاں اسلم اقبال ، جنوبی پنجاب سے وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی ہاشم جہاں بخت ، ڈاکٹر مراد راس اور سبطین خان شامل تھے تاہم عین آخری لمحوں میں "بنی گالہ اسٹیبلشمنٹ" ملک کے سب سے بڑے صوبے کو وزیراعلیٰ عثمان بزدار ہی کی سربراہی میں چلانے کا ایک اور چانس لینے میں کامیاب ہوگئی۔
البتہ اس آخری چانس کے لئے بقول سہیل وڑائچ اسلام آباد کے 'شاہین' نے بڑے گھر میں باور کروایا ہے "میں ایک سپیشل سسٹم / ارینجمنٹ کے ذریعے وزیراعلیٰ عثمان بزدار ہی کے face کے ساتھ پنجاب کو چلانے کی کوشش کرتا ہوں۔ عثمان بزدار پھر بھی ڈلیور نہیں کر سکے تو انہیں ہٹا کر نیا چیف منسٹر لے آئیں گے" ذرائع کے مطابق اس خصوصی بند و بست میں سامنے چہرہ اگرچہ عثمان بزدار ہی کا رہے گا جو فعال بھی نظر آئیں گے تاہم با اختیار وہ چیف سیکرٹری کو کردیا جائے گا جو عملاً صوبے کو چلائیں گے جن کی معاونت کے لئے پارٹی کے لوگوں اور بیوروکریٹس کی ایک ٹیم موجود ہوگی جسے وزیراعظم عمران خان خود تشکیل دیں گے . ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے مقتدر قوتوں کو یقین دلایا ہے کہ اگر اس تجربے میں بھی پنجاب حکومت ڈلیور نہ کرپائی تو وزیراعلیٰ تبدیل کردیا جائے گا .
یوں ملک کے سب سے بڑے صوبے پر اپنا سیاسی تسلط برقرار رکھنے میں "بنی گالہ اسٹیبلشمنٹ" کامیاب ہوگئی ہے جس نے وزیراعلیٰ کی کرسی پر کسی اور کو براجمان ہونے دیا نہ "تخت لاہور" ہاتھوں سے نکلنے دیا ، کیونکہ قوی امکان تھا کہ عثمان بزدار کی جگہ اب جسے بھی وزیراعلیٰ بنایا جاتا وہ 'بنی گالہ' کے استخاروں سے نہ نکلا ہوتا ، نہ ہی"بنی گالہ اسٹیبلشمنٹ" کے دائرہ اثر میں ہوتا۔
دوسری طرف "کپتان" نے مسلم لیگ (ن) کے 25 ایم پی ایز توڑ کو ہلا کر آئے روز آنکھیں دکھانے والے پنجاب میں اپنے سب سے بڑے اتحادی 'چوہدریوں' اور "نون" لیگ سمیت دونوں مسلم لیگوں کو جوابی پیغام اور ایک طرح سے "شٹ اپ" کال دے دی ہے۔ کیونکہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لئے "نون" لیگ میں کبھی ایم پی ایز پورے کرلینے کے پیغامات دیئے جاتے تھے تو کبھی 'چوہدری برادران' اور "شریف کیمپ" کے مابین خفیہ رابطوں اور پیغام رسانی کی صورت 'کپتان' کو پنجاب میں "قاف" لیگ اور "نون" لیگ والوں کے 'مجوزہ' اتحاد کی دھمکیاں پہنچائی جاتی تھیں۔
2 روز قبل جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ (ن) کے ایم پی اے نشاط ڈاہا کے فارم ہاؤس پر 'نون' لیگ کے "منحرف" اراکین پنجاب اسمبلی کا جو خفیہ اجلاس ہوا ، اس میں عملاً 15 ایم پی ایز شریک تھے جبکہ 10 لیگی ایم پی ایز فون کال پر شریک تھے جو وہاں پہنچ نہیں پائے تھے . میزبان نشاط ڈاہا کا یہ کہنا لیگی قیادت کے لئے زیادہ تشویش کا باعث بنا ہے" رہیں گے تو ھم مسلم لیگ (ن) ہی میں لیکن عمران خان ہمیں پسند ھے" بشاط ڈاہا اور ان کے ہمنوا "نون" لیگی ایم پی ایز کی طرف سے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو "شریف آدمی" قرار دیتے ہوئے ان کی قیادت پر اعتماد اور اطمینان کا اظہارِ کئے جانے کو حکمران جماعت پی ٹی آئی حلقوں میں "بریک تھرو" سے تعبیر کیا جارہا ہے .