تحریک انصاف پٹواریوں کے نظام کے ذریعے اپنی حکومت بچانا چاہتی ہے؟

تحریک انصاف پٹواریوں کے نظام کے ذریعے اپنی حکومت بچانا چاہتی ہے؟
یہ 2005 کی بات ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے سرحدی ضلع بھکر میں صحرائے تھل میں زمین کے ایک قطع پر چنگھاڑتے دھڑ دھڑاتے ٹریکٹرز چل رہے ہیں۔ یہ 25 ایکٹر زمین اس علاقے میں نو وارد شخص نے خریدی ہے، جس پر علاقے کی مقامی اسٹیبلشمنٹ ناراض ہے۔ علاقے کے پٹواری نے زمین کے اس نئے مالک کو زمین کے حدود اربعہ کی پیمائش کر کے دے دی ہے جس کے بعد اس نے تھل کی بارانی زمین کو نہر کی سطح پر لا کر نہری پانی لگائے جانے کے قابل بنانے کا عمل شروع کیا ہے جس پر یہ ٹریکٹر بڑے بڑے ریت کے پہاڑ گرانے میں مصروف ہیں۔
جون کے مہینے کی شدید گرمی میں صحرا تپ رہا ہے۔ ٹریکٹروں میں ڈیزل پھونکا جا رہا ہے اور اس نو وارد مالک کی جیب سے پیسے ہوا ہو رہے ہیں۔ 15 دنوں میں ہی آدھے سے زیادہ کام ہو چکا۔ اور زمین کے مالک کا 6 لاکھ روپیہ اب تک خرچ ہو گیا ہے۔
اگلے روز ایک کرولا گاڑی آ کر سائٹ پر رکتی ہے۔ اندر سے سونے رنگ کی راڈو گھڑی، سفید پگڑی پہنے نیلی شلوار قمیض میں ملبوس فربہ شخص اترتا ہے۔ یہ علاقے کا پٹواری ہے۔ وہاں پر چونکہ پٹواری ایک اہم شخصیت ہوتا ہے اس لئے اسے سب ہی جانتے ہیں۔ زمین کے اس نئے مالک کو بتاتا کہ وہ سیدھا اینٹی کرپشن کی پیشی بھگتا کر آ رہا ہے، جلدی میں ہے اور پریشان بھی کیونکہ جو زمین اس نے 15 دن پہلے پیمائش کر کے اسے دی تھی اس میں رد و بدل ہے کیوںکہ اس دن اس کے دستاویزات مس ہو گئے تھے۔
حیران پریشان اور غصے کا شکار اس زمین کا نیا مالک بہت چلایا اور بہت پٹکا لیکن کچھ نہ ہوا۔ پٹواری نے اسے جو نیا کاغذ دکھایا اس کے مطابق زمین کا وہ حصہ جسے 15 دن لگا کر نہری رقبہ بنا لیا گیا تھا وہ ہمسائے کی ملکیت ہے جب کہ اس مالک کا تو اصل میں دوسری جانب رقبہ ہے جسے پھر خطیر رقم خرچ کر کے سیدھا کرنا پڑے گا۔
اس کے بعد ہونا کیا تھا؟ سب کو معلوم ہے۔ لیکن اس مالک کے 12 سالہ بیٹے جس نے یہ سب ہوتا دیکھا، کے ذہن میں پٹواریوں سے متعلق ہزاروں سوال کھڑے ہو گئے۔ اس وقت تو بس وہ یہی جاننا چاہتا تھا کہ پٹواری کے پاس اتنی طاقت کیسے آ گئی کہ وہ جب چاہے زمین ادھر سے ادھر کر دے؟
اس کے یہ سوال جواب پا سکے یا نہیں لیکن ہوا کچھ یوں کہ عام طور پر ملک چلانے والی خاموش انتظامیہ کے یہ اراکین جن کو سب پٹواریوں کے نام سے جانتے ہیں، پاکستان کی سیاست میں گونجے۔ یہ گونج تحریک انصاف کی ڈیجیٹل ٹرول فورس نے پیدا کی جس کے روح رواں خود جناب عمران خان صاحب تھے۔ انہوں نے ن لیگیوں کو پٹواریوں کے ذریعے کرپشن کے استعارے کے طور پر پٹواری کہنا شروع کر دیا۔ جب کہ اپنے مخالفین کو کم عقل اور سیاسی شعور سے عاری قرار دینے کے لئے بھی پٹواریوں کا سیاسی نک نیم عطا کر دیا۔ حتیٰ کہ ن لیگ کی شہباز حکومت نے تو پٹواریوں کا خاتمہ کرنے کی ٹھان لی جس کے لئے پٹوار کا نظام کمپیوٹر رائزڈ کرنے کا عمل شروع ہو چکا تھا۔
تاہم، اب خبر ہے کہ تحریک انصاف کی پٹواری بیزار پنجاب حکومت ہر قیمت پر پٹوار اور پٹواری کا نظام شروع کرنا چاہتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ نمبر داری نظام بھی واپس لانے کا فیصلہ ہو رہا ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ ہمارا پٹواری ن لیگ کے پٹواریوں سے اچھا ہوگا۔
تحریک انصاف کے اس فیصلے کے سیاسی محرکات اور مضمرات میں جانے سے قبل اس پر بھی نظر ڈالنا ضروری ہے کہ پٹوار کا یہ نظام کیسے آیا، اور پھر ایسا چھایا کہ بظاہر پٹوار بے زار حکومت بھی اسے گلے لگانے کے لئے کمر کس رہی ہے۔
بی بی سی کے خصوصی فیچر میں اس پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ برصغیر میں سرکاری سطح پر زمینوں کے انتظام وانصرام کی تاریخ شیر شاہ سوری سے لے کر اکبراعظم اور برطانوی راج سے لے کر پنجاب میں موجودہ کمپیوٹرائزیشن تک پھیلی ہوئی ہے۔
انگریز نے 1860 میں اس مںصوبے پر کام شروع کیا اور 1900 میں پہلا بندوبست اراضی ہوا۔ 1940 کے بندوبست میں اس نظام کو صحیح معنوں میں جامع اور مؤثر طریقے سے نافذ کیا گیا۔
برطانوی راج کے دوران جب محکمہ مال کا آغاز ہوا تو حیرت انگیز طریقے سے زمین کے چپے چپے کی پیمائش کی گئی۔ سابق پنجاب کے ضلع گڑگاؤں، کرنال سے شروع ہونے والی بغیر مشینری اورجدید آلات کے زمین کی پیمائش ضلع اٹک، دریائے سندھ تک اس احتیاط اور عرق ریزی سے کی گئی کہ درمیان میں آنے والے ندی، نالے، دریا، سڑکیں، راستے، جنگل، پہاڑ، کھائیاں اورآبادیوں وغیرہ کا بھی اندراج ہوا۔
ہر گاؤں، شہر کے اندر زمین کے جس قدر ٹکڑے جس بھی شکل میں موجود تھے ان کو نمبرات خسرہ، کیلہ وغیرہ الاٹ کیے گئے۔
ہر نمبر کے گرد چاروں طرف پیمائش ’کرم‘ (ساڑھے پانچ فٹ فی کرم) کے حساب سے درج ہوئی۔ اس پیمائش کو ریکارڈ بنانے کے لئے ہر گاؤں میں ’فیلڈ بک‘ تیار کی گئی۔
جب حد موضع (ریونیو سٹیٹ) قائم ہو گئی تو اس میں نمبرات خسرہ ترتیب وار درج کر کے ہر نمبر کی چہار اطراف سے جو کرم کے حساب سے زمین برآمد ہوئی، درج کر کے اس کا رقبہ مساحت کے فارمولا کے تحت وضع کر کے اندراج ہوا۔ فیلڈ بک میں ملکیتی نمبرات خسرہ کے علاوہ سڑکوں، عام راستوں، بن، روہڑ، وغیرہ جملہ اراضی کو بھی نمبر الاٹ کر کے ان کی پیمائش تحریر کی گئی۔
اس دستاویز کی تیاری کے بعد اس کی سو فیصد صحت پڑتال کا کام افسران بالا نے کیا۔ اس کا نقشہ آج بھی متعلقہ تحصیل اور ضلع کے محافظ خانوں میں موجود ہے، جس کی مدد سے پٹواری گاؤں کا نقشہ (لَٹھا) تیار کرتا ہے۔ جب نیا بندوبست ہوتا ہے تو نئی فیلڈ بک تیار ہوتی ہے۔
اس پیمائش کے بعد ہر ’ریونیو سٹیٹ‘ کے مالکان قرار پانے والوں کے نام درج کیے گئے۔ ان لوگوں کا شجرہِ نسب تیار کیا گیا اور جس حد تک پشت مالکان کے نام معلوم ہو سکے، ان سے اس وقت کے مالکان کا نسب ملا کر اس دستاویز کو مثالی بنایا گیا۔
یہ دستاویز آج بھی اتنی مؤثر ہے کہ آپ لاکھ اپنا شجرہ یا قوم تبدیل کریں مگر ایک ذرا تحصیل یا ضلعی محفظ خانہ تک رسائی کی دیر ہے، یہ ریکارڈ آپ کے دادا کے پردادا کی بھی قوم اور کسب نکال کر دکھا دے گا۔ اب نظام کی بنیادوں میں اس قدر پیوست پٹوار کا نظام کیسے اکھاڑا جا سکتا ہے؟ کم ازکم ایک ایسی حکومت جس سے روز مرہ کے معاملات نہ چل رہے ہوں، وہ پٹوار کے نظام کو اکھاڑ نہیں سکتی۔ البتہ روایتی سیاست کے آزمودہ نسخے کے عین مطابق اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے لئے جن پٹواریوں پر ہمیشہ دو حرف بھیجے اب انہی کے پلو پکڑ کر اپنی بقا کی جنگ لڑے گی