عمران خان، جیلا پٹواری اور کیوی وزیراعظم کا کردار

عمران خان، جیلا پٹواری اور کیوی وزیراعظم کا کردار
سانحہ نیوزی لینڈ پر اہل اسلام نے روایتی طور پر اظہار افسوس ضرور کیا مگر کسی بڑی شخصیت نے دورہ کرنے کی زحمت نہیں کی۔ شاید کہ نیوزی لینڈ کا یہ داخلی معاملہ تھا۔ اس کے علاوہ سانحات میں بھی شاد و نادر ہی اسلامی ممالک کے سربراہان اور اسلامی ممالک کے بڑے سیاسی یا مذہبی لیڈر شریک دیکھے گئے ہیں۔ برعکس اس کے ویٹیکن سٹی یا دیگر کرسچن رہنما اور سربراہان مملکت میں زیادہ انسانی ہمدری دیکھی گئی ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے تو کمال ہی کر دیا۔ انسان دوستی کی زندہ مثال بن کر دنیا سے داد تحسین سمیٹ رہی ہے۔ وزیراعظم جیسنڈا نے اپنے عمل سے ثابت کیا اور پوری دنیا کو باور کرایا کہ ریاست ماں ہوتی ہے۔ جیسنڈا جب مسلمان متاترین کے غم غلط کرنے میں مصروف تھی تو ایک مسلمان نوجوان ہمدرد ماں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دے رہا تھا۔ شاید اسے اسلامی تعلیمات میں ماں کی قدر وقیمت کی اندازہ نہیں ہوا ہوگا۔ پگلے ماں کا کون سا مذہب ہوتا ہے۔ ماں تو آخر ماں ہی ہوتی ہے۔ بقول شاعر

بارش، تیز ہوا تے بدل، سب دی اپنی تھاں ہوندی ایں
دھپ پانویں چنگی لگے، چھاں تے آخر چھاں ہوندی ایں
بہن، بھرا تے ابا، پتر، سارے ای رشتے ودھیا نیں
پوری دنیاگم ڈٹھا واں، ماں تے آخر ماں ہوندی ایں

(بارش، تیز ہوا اور بادل، سب کی اپنی ایک جگہ ہے
دھوپ چاہے بھلی لگے، چھاؤں آخر چھاؤں ہوتی ہے
بہن، بھائی اور، باپ، بیٹا، سارے ہی رشتے پیارے ہیں
پوری دنیا گھوم چکا ہوں، ماں آخر ماں ہوتی ہے)

https://www.youtube.com/watch?v=ZyK3Q_A06MU&t=20s

ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کی طرح سانحہ نیوزی لینڈ میں شہید ہونے والے مسلمانوں کا غم بھول گیا ہوں۔ مگر جیسنڈا کا کردار پوری آب و تاب کے ساتھ یاد ہے۔ جیسنڈا سیاہ لباس زیب تن کیے اورسر پر دوپٹہ اوڑھے غمزدہ مسلم خواتین و حضرات کو گلے لگاتی ہوئی نظر آتی ہے۔ پاکستان میں بالخصوص اور دنیا بھر میں بالعموم جیسنڈا کے کردار کو بھرپورخراج تحسین پیش کیا گیا۔ اس سارے معاملے کے بعد ایک تجسس ہے کہ کیوی وزیراعظم مسلمان تو نہیں ہے۔ پھر کون سے مذہب سے تعلق ہے۔ کس نظریے کی ماننے والی ہے۔ کیوی ریاست کا کیا بیانیہ ہے۔ جس سے جیسنڈا میں انسانی ہمدری بلا تفریق رنگ، نسل، مذہب اور قومیت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ لازمی کوئی نیا اور انوکھا ہی مذہب ہے۔ جس میں انسانوں کی قدر زیادہ سکھائی جاتی ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=STHcRWJ9c9E

اگر مجھے اجازت دی جائے، گردنی زدنی کے فتوے نہ لگیں تو میں جیسنڈا کا مذہب اپنانا اور قبول کرنا پسند کروں گا۔ کیونکہ کرسچن، یہودی، مسلمان حکمران تو ایسے کرتے نہیں دیکھے گئے۔ اگر کوئی کرے بھی تو اس کے ہم مذہب ہی اسے مار دیتے ہیں۔ پچھلے دنوں پاکستان کے شہر بہاولپور میں کالج کے اندر ایک طالب علم نے اپنے استاد کو قتل کر دیا تھا۔ کسی نے نوٹس تک نہیں لیا۔ جیسے کوئی سانحہ ہوا ہی نہیں۔ لاہور کے بادامی باغ اور فیصل آباد کی قریبی شہر گوجرہ میں کرسچن بستیاں جلا کر خاکستر کر دی جاتی ہیں۔ کوٹ رادھا کشن میں کرسچن میاں بیوی کو زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ احمدی عبادت گاہ پر حملے ہوتے ہیں۔ کوئی پوچھتا تک نہیں ہے۔ بلکہ واصل جہنم کرنے پر مبارک بادیں دی جاتی ہیں۔



پاکستان میں رہتا ہوں تو بات بھی اپنی سرزمین کی ہی کرنا پڑے گی۔ نیوزی لینڈ کی ریاست بے شک ماں جیسی ہے۔ مگر مجھے تو اپنی ماں کی طرف ہی دیکھنا ہے۔ جو شاید سوتیلی ہے۔ جو مجھے انصاف دے سکتی ہے نہ جینے کا حق دیتی ہے۔ جب ریاست کی جانب سے ماں جیسا کردار سامنے نہیں آتا ہے تو پھر عوام اور ریاست کے درمیان تعلق محض مجبوری رہ جاتا ہے۔ ریاست سے ناراضگی اور شکایت کے مفہوم کو غداری کا نام دیا جاتا ہے۔ حب الوطنی خوف کے سائے میں پلتی ہے۔ اعتماد کا فقدان پیدا ہوتا ہے۔ شک وسعت اختیار کرتا ہے۔ مذہب اور حب الوطنی کے الفاظ ہتھیار بن کر بے بس اور مظلوم طبقات پرعرصہ حیات تنگ کر دیتے ہیں۔ ریاست تحلیل ہوکر اجارہ داری، جبر اور ظلم کی شکل اختیار کرجاتی ہے۔ جس سے محکمومی کا احساس جنم لیتا ہے۔

یہی احساس لاوہ بن جاتا ہے۔ جب پھٹتا ہے توپھر ظالم و جابر قوتوں کو زمین پناہ نہیں دیتی۔ اگر کوئی کسی خوش فہمی کا شکار ہے تو تاریخ کے جھروکے میں جھانک کر عبرت کی داستانیں ملاحظہ کر سکتا ہے۔ جیسنڈا اور نیلسن منڈیلا کے مثالی کردار سے رہنمائی بھی حاصل کر سکتا ہے۔ ہمارے وزیراعظم عمران خان اپنے عہد زریں میں یورپ کی مثالیں طمطراق سے دیتے آئے ہیں۔ مگر صرف زبانی جمع و خرچ کرتے ہیں۔ عملی طور پر جیلے پٹواری کو بھی پچھے چھوڑ گئے ہیں۔ جو مریخ پر بھی کام کروانے کی حامی بھر لیتا ہے۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔