قاری سلیمان کا تعلق خیبر پختون خوا کے ضلع خیبر کے تحصیل باڑہ سے تھا۔ 23 سالہ سلیمان گزشتہ چار سال سے دیر کالونی کے مدرسے میں زیر تعلیم تھے اور ساتویں درجے کے طالب علم تھے۔ قاری سلیمان بھی دھماکے کے روز مدرسے میں موجود تھے کہ اچانک دھماکہ ہوا اور وہ سات دیگر ساتھیوں سمیت جان بحق ہوگئے۔
قاری سلیمان ہر ہفتے اپنے گھر آتے تھے اور موت سے ٹھیک پانچ روز پہلے وہ باڑہ میں اپنے گھر آئے تھے اور ہفتے کی صبح کلاسز لینے کے لئے وہ پشاور چلے گئے تھے جہاں دھماکے میں وہ اپنے زندگی کی بازی ہار گئے۔ قاری سلیمان کے بھائی نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ وہ ہر ہفتے گھر والوں سے ملنے آتے تھے اور موت سے پانچ روز پہلے بھی وہ گھر والوں سے ملنے کے لئے مدرسے سے گھر آئے تھے اور ہفتے کے روز وہ گھر سے نکلے اور واپس کبھی نہیں آئے اور شائد یہ ان کی قسمت میں لکھا تھا اور موت اس دن ان کی یقینی تھی۔ قاری سلیمان کے بھائی نے مزید کہا کہ وہ ایک خاموش طبیعت اور نیک انسان تھے اور زیادہ تر وہ اپنی پڑھائی میں مگن رہتے تھے ۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان کی قسمت میں یہی لکھا تھا اور ان کا رزق اس دنیا میں پوری ہوگئی اور اللہ نے ان کو اپنی طرف بلالیا اس پر ہمیں کسی سے کوئی گلہ نہیں۔
پشاور کی دیر کالونی میں منگل کے روز حقانی نیٹ ورک کے حامی ایک مدرسے میں دھماکہ ہوا تھا جس میں لگ بھگ آٹھ لوگ جان بحق جبکہ پچاس سے زیادہ آفراد زخمی ہوچکے تھے جس کے بعد پشاور میں ایک سرچ آپریشن کیا گیا اور سو سے زیادہ لوگ گرفتار ہیں۔ معلومات کے مطابق پشاور کے اس مدرسے میں زیادہ تر طالب علموں کا تعلق پڑوسی ملک افغانستان سے تھا اور مدرسے سے منسلک عالم دین کی زندگی کو بھی خطرات لاحق تھے اور ماضی میں ان کو بگرام جیل میں قید کیا گیا تھا جبکہ ان کے بارے میں رائے عامہ یہی ہے کہ وہ ایک سخت گیر موقف رکھنے والے عالم دین تھے ۔
پشاور کے علاقے فقیر آباد کا 22 سالہ رہائشی معروف شاہ بھی ان اہلکاروں میں شامل تھا جو مدرسے دھماکے میں جان سے گئے۔ وہ بچپن سے اس مدرسے میں طالب علم تھا اور حفظ کرنے کے بعد دیر کالونی کے مدرسے میں علم حاصل کررہا تھا۔ ان کے والد اول بدین نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ میرے سات بچے اور بھی تھے مگر معروف شاہ ان سب میں پڑھائی میں اچھے تھے اور اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ ان کو مدرسے میں داخل کرکے عالم دین بناؤں اور میرے بیٹے کی بھی یہی خواہش تھی کہ وہ عالم دین بن کر درس و تدریس سے وابستہ ہوجائے۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ ایک ہفتے بعد آتے تھے تو گھر والوں کے لئے خوشی کا سماں ہوتا تھا کیونکہ ان کے بھائی گھر آتے تھے۔
ان کے والد نے کہا کہ میں نے فیصلہ کیا تھا کہ علم سے فارغ ہوتے ہی میں پہلی فرصت میں ان کی شادی کرونگا مگر اللہ کی ذات کو کچھ اور منظور تھا اور ان کا ہمارے ساتھ اتنا ہی ساتھ تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ حسب معمول وہ اس جمعے کو بھی گھر آئے تو ہم بڑے خوش تھے اور ہفتے کی صبح وہ گھر سے نکل گئے اور وہ کبھی زندہ واپس نہیں لوٹے لیکن ان کا تا بوت گھر ضرور آیا۔ ان کے والد کا کہنا تھا کہ موت اور زندگی تو اللہ کے ہاتھ میں ہے مگر ہمیں معلوم نہیں تھا کہ مدرسے کے اندر بھی دھماکہ ہوگا جو ہم سے ہمارا بیٹا چھین لے گا اور جوان اولاد کا غم اتنا بھاری ہوتا ہے کہ اللہ کسی کے دشمنوں کو بھی نہ دکھائے۔