جنوری 2011 میں لاپتہ افراد بنچ کے سربراہ جسٹس راجہ فیاض نے حکم صادر فرمایا تھا کہ لاپتہ افراد کی گمشدگی میں ایجنسیوں اور پولیس کے ملوث ہونے کے ثبوت ملنے کی بنا پر ان کے خلاف فوجداری مقدمات چلائے جائیں۔
دسمبر 2013 میں چیف جسٹس افتخار چودھری کے احکامات کی رو سے دو گاڑیوں میں چہرے ڈھانپے 14 لوگ سپریم کورٹ میں پیش کیے گئے۔ ان لوگوں کے بارے میں اداروں کا مؤقف تھا کہ یہ لاپتہ افراد ہیں۔ اُس وقت کے پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے سپریم کورٹ کے سامنے دعویٰ کیا تھا کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کرانا چٹکی کا کام ہے، بس دو ہفتے دے دیے جائیں۔
دسمبر 2022 میں سپریم کورٹ نے بیرک گولڈ کے ساتھ بلوچستان کے ریکوڈک معاہدے کو قانونی قرار دیا تھا جس کے بارے میں بلوچ سیاسی کارکنان کا الزام ہے کہ یہ بلوچ وسائل کا استحصال ہے۔
جنوری 2023 میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں دو لاپتہ شہریوں کے مدعے پر جج صاحبان نے ریمارکس دیے کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ اُس وقت تک حل طلب رہے گا جب تک بڑوں کے خلاف قانونی دائرہ کار سخت نہیں ہو گا۔ بنچ میں موجود جسٹس اطہر من اللہ اس عزم کا اظہار کرتے رہے کہ ایوانِ عدل ان کے خلاف قانونی کارروائی کرے گا۔
خواجہ آصف آج بھی ایک نئے سیٹ اپ میں وزیر دفاع ہیں۔ ہفتے دہائیوں میں تبدیل ہوتے گئے مگر لاپتہ افراد لاپتہ ہی رہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ اختر مینگل نے آج شہباز شریف کی کابینہ میں اپنے بندے بٹھا رکھے ہیں اور اختر مینگل ریاست کے ایک ستون کا حصہ ہوتے ہوئے دوسرے ستون سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف سپریم کورٹ کے باہر دھرنے میں شریک ہیں۔
سپریم کورٹ کی اسی سفید، خوبصورت، تزئین و آرائش پر مبنی اور عجیب و منفرد عمارت میں سال بدلتے گئے، فیصلوں پر عمل درآمد ہوتے رہے اور لاپتہ افراد کے فیصلے نہ عمل کے مستحق رہے اور نہ درآمد کے زمرے میں آتے رہے۔ بلوچستان کے ہوشیار، خوش گفتار اور ہینڈسم سیاست دان کیا کر رہے ہیں قوم کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔ اگر وہ اپنے اعمال خود سمجھ رہے ہیں تو ایک وژن کی بات ہے۔
انوکھی بات یہ بھی ہے کہ ہر سال ہر اقتدار کے سربراہ کو بلوچستان کے سنگین مسائل پر دھمکی دینے کے باوجود اختر مینگل کو سنجیدہ نہیں لیا جا رہا۔ مقتدر حلقے یہ تو بتائیں کہ شطرنج میں اختر مینگل کے پاس پیادے نہیں یا سیاست میں ووٹ نہیں؟ مثلاً میرا حافظہ بار بار مجھے یہ بتا رہا ہے کہ چاغی میں جب ڈرائیور فورسز کی جانب سے گاڑیوں میں ریت ڈالنے کی وجہ سے ریگستان میں پیاس و بھوک کی وجہ سے لقمہ اجل بن گئے تو اختر مینگل نے شہباز شریف کی کابینہ میں اپنے بندوں کی حلف برداری سے اس وقت تک منع کیے رکھا جب تک اس واقعے پر کمیشن نہیں بن جاتا لیکن اس کمیشن کی سفارشات ہنوز لاپتہ ہیں۔
ماہل بلوچ کی اغوا نما گرفتاری ظاہر کی گئی، مینگل پھر کابینہ کو دھمکیاں دیتے رہے مگر معاملہ ٹھنڈا ہوتا گیا اور ماہل کو ریمانڈ در ریمانڈ کے عمل سے گزرنا پڑا۔ بات یہیں ختم ہو گئی۔ عمران خان کے اتحادی سیاست دان اختر مینگل وہاں بھی ایسا کرتے رہے۔ اب جب پنجاب کی سالمیت اور استحکام جس سے ملک کا مستقبل جڑا ہے کی بات آئی تو اختر مینگل عملاً ان ایکشن ہوئے اور سپریم کورٹ کے دھرنے میں اپنے بندے بجھوا دیے۔
خیر ہماری کنفیوژن کی نہ کوئی تاریخ ہے اور نہ ہی کوئی اوقات البتہ بلوچستان کے کسی ووٹر سے سنا جو کہہ رہا تھا؛ ' اختر مینگل وڈھ سے الیکشن لڑے ہیں یا میاں چنوں سے؟'
یوسف بلوچ کالم نگار ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔