پارلیمان اور عدالت سے اٹھنے والی آئینی اختیارات کی الگ الگ گونج شاہراہ دستور پر ایوان عدل کے سامنے ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہیں۔ اب دیکھیں کہ ان میں سے سر بلندی کس کو ملتی ہے یا آئین شاباش کس کو دیتا ہے۔
چیف جسٹس بڑے پُرتپاک انداز میں اپنے آئینی فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں۔ اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے، کسی کو برا لگے یا اچھا، بنچز کی تشکیل بھی کر رہے ہیں اور فیصلے بھی صارد کرتے جا رہے ہیں۔ بلکہ وہ آئین کی سرفرازی کی کوشش میں وہ حکم نامے بھی جاری کر رہے ہیں جو ان پر واجب بھی نہیں ہیں۔ اسے ان کی فیاضی ہی سمجھیے کہ انہوں نے سٹیٹ بینک کو فنڈز کے لئے حکم جاری کر دیا اور الیکشن کمیشن کی آسانی کے لئے الیکشن کی تاریخ بھی دے ڈالی۔
الیکشن کمیشن کو چاہئیے تھا کہ ان کے شکر گزار ہوتے مگر انہوں نے نظرثانی کی اپیل دائر کر دی۔ کوئی اپنے اختیارات میں کسی کا دخل کہاں پسند کرتا ہے۔ چیف جسٹس صاحب کو بھی اتنا خیال تو کرنا ہی چاہئیے تھا کہ اگر وہ اپنے اختیارات سے متعلق پارلیمان کے قانون کے پیدا ہونے سے بھی پہلے ابارشن کی گولی بھجوا سکتے ہیں تو پھر الیکش کمیشن کو بھی اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے تاریخ کا تعین کرنے دیتے تو شاید انتخابات بارے فیصلے کی تاریخ گزرنے کے بعد اس کی اپیل نہ سننی پڑتی۔ توہین عزت کی کارروائی سے پہلے اس طرح کی عزت افزائی نہ ملتی۔
آئین ہی الیکشن کمیشن کو بھی یہ ذمہ داری دیتا ہے کہ اپنے اختیارات کے ذریعے سے صرف الیکشن ہی نہ کروائیں بلکہ اپنے اختیارات کے آزادانہ استعمال سے غیر جانبدار، شفاف اور سب کے لئے قابل قبول الیکشن کروائیں۔
آئین ہی پارلیمان کو بھی اختیار دیتا ہے کہ وہ قانون بنائے اور انہوں نے اپنے آئینی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے قانون بنا دیا ہے۔ سپریم کورٹ کا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پیدا کر دیا۔ وہ قانون کا خالق ادارہ ہے اور انہوں نے چیف جسٹس کی گولی کو مسترد کرتے ہوئے اس ایکٹ کی پیدائش ہونے دی۔ اب عدالت چاہے تو اس پیدائش کو جائز قراد دے یا ناجائز، قانون تو پیدا ہو چکا ہے اور اس کی باقاعدہ اشاعت بھی ہو چکی ہے۔
چیف جسٹس کی کرم فرمائی اور نوازش ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے بھی بڑھ کر کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ فیصلے صادر کرتے جا رہے ہیں اور ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ان پر عمل درآمد ہوتا ہے یا نہیں۔ عمل درآمد کروانا حکومت کا کام ہے، وہ کروائے یا نہ کروائے۔ ویسے اگر تھوڑی سی کرم فرمائی اور شائستگی کا مظاہرہ حکومت کے ساتھ بھی کر لیتے تو اچھا ہی تھا۔ ان پر بھی اتنا ہی بوجھ ڈالتے جتنی ان کی طاقت ہے۔
سورۃ بقرہ میں ہے؛ اللہ بھی کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔
حکومت بھی ان کی مشکور ہوتی اور آئین، قانون اور اداروں کی ساکھ بھی متاثر نہ ہوتی۔ حکومت اور قوم کی صلاحیتیں بھی ضائع نہ ہوتیں۔
یوں تو عمران خان نے بھی قومی اسمبلی سے استعفے دینے اور اپنی دو صوبائی حکومتوں کو فارغ کرنے میں اپنے آئینی حق کا ہی استعمال کیا تھا مگر اس پر اٹھارہویں ترمیم اور غیر آئینی اور غیر جمہوری قوتوں کو تعجب ضرور ہو رہا ہوگا کہ جب وہ آئینی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے صدر صاحب سے حکومتیں فارغ کرواتے تھے تو سیاست دان شکوے کرتے تھے اور ججز کو بھی توثیق کرنے پر برا بھلا کہتے تھے مگر اب تو ایک پارٹی کے سربراہ نے سب کچھ کسی اور کے کہنے پر کروا ڈالا۔
اب تحریک انصاف پھر آئینی اختیار کے تحت صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات چاہتی ہے۔ تو کیا آئین کے اختیار سے اپنی ہی اسمبلی کی بے توقیری کے بعد پھر اسی حکومت کو ترس رہے ہیں؟ ان کا یہ آئینی اختیار تو ہے مگر ہے بڑا ہی ناشکری کا فعل۔ اب انتخابات صوبائی اسمبلیوں کے ہونے ہیں مگر اس کے اخراجات وفاقی حکومت کو دینے پڑ رہے ہیں۔ یہ تو یوں ہی ہے جیسے کوئی اپنے دشمن سے کہے کہ میری برات کا خرچہ تم اٹھاؤ۔ ان کے ساتھ کوئی اچھا برتاؤ کیا ہوتا تو شاید آج وہ بھی فراخدلی کا مظاہرہ کر ہی دیتے۔ لیکن خان صاحب تو آئے روز اپنی صوبائی حکومتوں کے ساتھ وفاق پر چڑھ دوڑتے رہے تھے اور ان کو 22 کلومیٹر کی حکومت کے طعنے دیتے تھے۔
اب حوصلہ رکھیں اگر آپ نے اپنے آئینی اختیار کے استعمال سے ان کے آئینی اختیار کو مضبوط کر دیا ہے تو پھر وہ بھی اپنے آئینی اختیارات ہی کا استعمال کر رہے ہیں۔ آئین ہی ان کو قانون بنانے اور فنڈز کو جاری کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیتا ہے اور وہ بھی بڑے اعتماد کے ساتھ اس کا استعمال کر رہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ شاید ماضی کی آمرانہ حکومتیں اور تسلط پر مبنی بندوبست بھی اس پر شرمندہ ہو رہے ہوں۔
آئین تو سب کا ہے ناں! کسی ایک فرد، جماعت یا ادارے کا تو نہیں۔ آئین ہی سب کو پُرامن اور آئین و قانون کے دائرے کے اندر رہ کر احتجاج اور دھرنوں کا اخیتار بھی دیتا ہے جس کا استعمال ہر شہری اور سیاسی جماعت کا حق ہے۔ اس کا استعمال تحریک انصاف نے بھی کیا ہے اور آج پی ڈی ایم بھی کر رہی ہے۔ اگر کسی کا حق اظہار یکجہتی ہے تو کسی دوسرے کا حق استعفیٰ بھی تو ہے۔
ہاں اگر کوئی امن کو تباہ کرنے کی کوشش کرے یا قومی املاک اور ریاستی تنصیبات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے تو پھر آئین ہی حکومت پر بھی یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ حکومت کی رٹ کو قائم کرتے ہوئے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث عناصر کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرے۔ حکومت چاہے تو کسی کو شہر بدر کر دے اور کسی کو چاہے تو ریڈ زون بھی اس کے لئے کھول دے۔
اب عدالت کو بھی آئین ہی یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کٹہرے سے باہر کھڑے ہوؤں کو بھی بلا لے اور ان کے ساتھ آئین و قانون کے مطابق برتاؤ کرتے ہوئے انہیں سزا سنائے یا بری کر دے۔ یہ ان کا انداز جاہ و جلال سمجھیے یا عَسَلِ طبیعی شافی منکسری کہ چاہیں تو وزیر اعظموں کو کھڑے کھڑے گھر بھیج دیں اور چاہیں تو کسی قیدی کو بھی قفس سے آزاد کر دیں۔ چاہیں تو کسی کو گنتی میں ڈال دیں، چاہیں تو نکال دیں اور جب چاہیں اپنے آئینی اختیارات سے عدالتی رائے پر بھی حاوی ہو جائیں کیونکہ یہ اختیار انہیں آئین جو دیتا ہے۔
اس مرتبہ پارلیمان نے بھی معاملے کو بھانپتے ہوئے نااہلی کے بعد سڑکوں پر نکلنے کی بجائے وقت سے پہلے نکلنے کی حکمت عملی اپنائی ہے تا کہ ان کو کوئی پچھتاوا نہ رہے۔ اگر وہ نااہل ہوتے ہیں تو پھر نااہل کرنے والوں کے استعفوں کے مطالبے سے احتساب و حساب برابر کر پائیں۔
اب عدالتوں کا اختیار اگر قانون کی تشریح کرنا اور سزا و جزا دینا ہے تو پھر پارلیمان کا اختیار قانون، تحریکیں اور قراردادیں منظور کرنا تو ہے ہی۔ انہوں نے بھی اپنے اختیار کے استعمال میں کنجوسی کرنی چھوڑ دی ہے اور مذمتی قراردادوں اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بعد چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کی تحریک منظور کر ڈالی ہے۔
ہر کسی کے پاس آئینی اختیارات کے استعمال کی منطق اور اعتماد موجود ہے۔ ہر کوئی آئینی حلف سے وفاداری کے دعوے کر رہا ہے مگر آئین حیران ہو کر سب کے منہ دیکھ رہا ہے۔ پارلیمان چیف جسٹس کے انصاف کو جتھوں کا انصاف اور چیف جسٹس سیاسی جماعتوں کے مطالبات کو سیاسی جتھوں کا انتظام کہہ رہے ہیں۔ مگر ایک جمہوریت اور قانون پسند شہری کے نزدیک اگر اس صوت حال کو غیر آئینی نہیں کہا جا سکتا تو اسے ایسا مثالی بھی نہیں کہا جا سکتا جس سے ملکی امن، ترقی، خوشحالی اور سلامتی کی امیدیں وابستہ کی جا سکیں۔
عام شہریوں کے ذہنوں میں اس طرح کے سوال پیدا ہوتے ہیں کہ اگر ہر کوئی اپنے آئینی اختیار اور حق ذمہ داری کا ہی استعمال کر رہا ہے تو پھر ملک میں یہ انتظامی افراتفری، سیاسی نفسانفسی اور اقتدار کی رسہ کشی کیسی؟ یہ امتیازی برتاؤ کی خرمستی کیسی؟ یہ آئینی اختیارات کی جنگ ہے یا آئینی پاسداری و بالادستی کی؟ سب کو آئین کی خواہش کو سمجھنا پڑے گا۔ اگر نہیں تو پھر عوام یہی سمجھیں گے کہ ملک میں سبھی ریاستی اداروں کے آئینی اختیارات تو اپنی اپنی جگہ پر جیت رہے ہیں مگر آئین ہار رہا ہے۔