فیض صاحب کے حوالے سے سال میں کئی میلے لگتے ہیں، عرس بھی منایا جاتا ہے، وہاں سب کچھ ملتا ہے ادب، لٹریچر، موسیقی مگر اس کے لئے ایلیٹ ہونا ضروری ہے۔
فیض صاحب کے میلے ٹھیلے میں سب ہوتا ہے، اگر کچھ ہوتا نہیں تو وہ غریب اور پسماندہ طبقہ، جس کے لئے فیض صاحب جہدوجہد کرتے رہے۔
فیض صاحب کے فیسٹیول میں اب ٹریڈ یونین لیڈر، کسان رہنما، کوئی بے باک صحافی نہیں ملتے۔
فیض صاحب کا فیض اب مجاورین فیض تک محدود ہے، فیض صاحب کے مجاور ہم جیسے متاثرین فیض کے لیے ایک اور طرح کا تازیانہ ثابت ہو رہے ہیں۔ وہ اب جاوید صاحب اور فیاض چوہان کو ایک پیج پر لے آئے۔
فیض فیسٹیول کو چھوڑیں! آپ سلیمہ ہاشمی صاحبہ کا ثمینہ پیرزادہ سے انٹرویو سنیے گا۔ میرے لئے تو نہایت مایوس کن تھا۔ اشتراکیت ترقی پسندی وغیرہ بھاڑ میں گئی، فیض کا پیغام اور سوچ اب کمرشلائز ہو گیا ہے اور کتنا کمرشل ہو سکتا ہے وہ اس انٹرویو میں تھا۔
مجھے اعتراض نہیں کہ فیض صاحب مے نوش تھے اور یہ دودھ سوڈا پی رہے ہیں۔ تکلیف دہ یہ ہے کہ یہ دودھ سوڈا کے لئے فیض صاحب کے جام استعمال کر رہے ہیں۔
کمبختو برتن ہی بدل لو
رہے فیض صاحب تو وہ ہمارے ہیں، ہمارے رہیں گے
کر رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے