Get Alerts

'بچوں کو سانس کی بیماریوں کا سامنا ہے، خدا کے لیے کوئی حل تلاش کریں'

'بچوں کو سانس کی بیماریوں کا سامنا ہے، خدا کے لیے کوئی حل تلاش کریں'
'بچوں کو سانس کی بیماریوں کا سامنا ہے، خدا کے لیے کوئی حل تلاش کریں' یہ تھے وہ الفاظ جو ایک مزدور نے بین الاقوامی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو کہے جب ان سے پوچھا گیا کہ شہر میں سموگ کی کیا صورت حال ہے۔

بین الاقوامی اخبار الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی شہر لاہور کو ائیر کوالٹی انڈیکس کے ذریعے دنیا کا سب سے آلودہ شہر قرار دیا گیا ہے، کیونکہ شدید سموگ میں دم گھٹنے والے رہائشیوں نے حکام سے اس کا حل نکالنے کی اپیل کی ہے۔

ایئر ویژول مانیٹرنگ پلیٹ فارم چلانے والی سوئس ٹیکنالوجی کمپنی IQAir کے مطابق بدھ کو لاہور کی ہوا کے معیار کی درجہ بندی 348 تھی، جو کہ 300 کی خطرناک سطح سے بھی کافی زیادہ ہے۔

پاکستان میں حالیہ برسوں میں فضائی آلودگی میں مزید اضافہ ہوا ہے، کیونکہ کم درجے کے ڈیزل کے دھوئیں، موسمی فصلوں سے نکلنے والا دھواں، اور سرد موسم سرما کا درجہ حرارت سموگ کے جمود کے بادلوں میں شامل ہو جاتا ہے۔

بین الاقوامی جریدے الجزیرہ کے مطابق "11 ملین سے زیادہ لوگوں پر مشتمل ہلچل سے بھرپور شہر لاہور، فضائی آلودگی کے حوالے سے دنیا کے بدترین شہروں میں مستقل طور پر شامل ہے۔"

حالیہ برسوں میں، رہائشیوں نے اپنے ایئر پیوریفائر بنائے ہیں اور ہوا کو صاف کرنے کے لیے حکومتی اہلکاروں کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ لیکن حکام عمل کرنے میں مسلسل سست روی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، سموگ کا الزام بھارت پر لگا رہے ہیں یا اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔

دکاندار اکرام احمد نے بین الاقوامی جریدے کو کہا کہ ’’ہم غریب لوگ ہیں، ڈاکٹر کے چارجز بھی برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘

اس نے مزید کہا کہ"ہم صرف حکومت سے آلودگی پر قابو پانے کی اپیل ہی کر سکتے ہیں۔ میں کوئی پڑھا لکھا آدمی نہیں ہوں، لیکن میں نے پڑھا ہے کہ لاہور کی ہوا کا معیار سب سے خراب ہے اور پھر ہندوستان کے شہر دہلی کا نمبر آتا ہے۔ اگر ایسا ہی ہوتا رہا تو ہم مر جائیں گے۔‘‘

ایک اور مزدور سعید نے کہا کہ "پہلے، میں اپنے بچوں کے ساتھ آیا کرتا تھا، لیکن اب میں انہیں اپنے ساتھ باہر نہیں لاتا۔"

اس نے مزید کہا کہ’’یہاں فیکٹریاں اور چھوٹی صنعتیں چل رہی ہیں، یا تو انہیں کہیں اور شفٹ کر دیں، انہیں معاوضہ دیں یا جدید ٹیکنالوجی فراہم کریں، تاکہ ہم اس سموگ سے نجات حاصل کر سکیں۔‘‘