گیارہ سو بٹا گیارہ سو: ' اسے ہمارے تعلیمی کارنامے کی یاد کے طور پر محاورہ میں شامل ہونا چاہیے'

گیارہ سو بٹا گیارہ سو: ' اسے ہمارے تعلیمی کارنامے کی یاد کے طور پر محاورہ میں شامل ہونا چاہیے'
اگرمحاورے کی فیکٹری بند نہیں ہوئی تو "گیارہ سو بٹا گیارہ سو" کو ہمارے تعلیمی کارنامے کی 'یادگار' کے طور پر روزمرہ کی اصطلاح میں جاری ہونا چاہیئے، اس اجمال کے طور پر جس میں پنجاب کے مختلف انٹر بورڈز کے سو سے زائد طالبعلموں نے پورے "یاراں سو" نمبرلے کر دنیا میں اپنی طرز کا ایک تعلیمی ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔
ہمارے وقت میں تو صرف حساب کے مضمون میں ہی فُل مارکس ممکن تھے۔ اب کمپیوٹر وغیرہ بھی شامل کیے جاسکتے ہیں۔ کووڈ کے باعث پڑھائی کے متاثر ہونے سے بورڈ کے تحت لیے گئے امتحانات میں لازمی مضامین نہیں شامل کیے گئے ،یعنی صرف 'حسابی' پرچے لیے گئے، جس کی بدولت ایسا 'بے باک' حساب وکتاب ممکن ہوا کہ ایک آدھ نہیں بلکے پورے 117 طلباء نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔
حیرت ہے کہ امتحانات میں لازمی مضامین اُردو،مطالعہ پاکستان وغیرہ نہیں شامل کیے گئے کہ کورونا کے باعث کلاسوں کی عدم دستیابی پر طلبا کو سہولت دی گئی۔ حالانکہ عموماً یہ مضامین سمجھنے اور سمجھانے والے مضامین میں شمار نہیں ہوتے اور سائنس ،کمپیوٹر کے بچے ان کی کلاسز کم ہی لیتے ہیں یا لیں بھی تو اونگھتے رہتے ہیں کہ ان مضامین میں رٹّٗا اور 'گیس'چلتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ لازمی مضامین کے پرچے نہیں لیے گئے، بلکہ ان کو اس میں اضافی نمبر بھی دیئے گئے۔ ویسے امکان یہی ہے کہ اگر لازمی پرچے جیسے اُردو ہو بھی جاتے تو بورڈ کے ہونہار طلبا غالب کو بھی 'پورا' کر ہی دیتے، اور "غالب کون ہے" پوچھے جانے پر بالکل بتلا دیتے کہ کون،کہاں اور کیوں ہے کہ نمبر کاٹنے کی گنجائش ہی نہ رہتی!
اس بات سے انکار نہیں کہ بچوں نے خوب محنت کی ہوگی اور نوجوانوں میں ٹیلنٹ کی بھی کوئی کمی نہیں۔ اس کے علاوہ کچھ مڈل کلاس اور غریب گھرانوں کے بچے آج کل کے موبائل زمانے میں بھی انٹر میں پورا 'زور' لگا دیتے ہیں۔ ان کے بڑوں کی اس بات کے مصداق – "بیٹاپڑھ جا انٹر- 'دام' بھلی کرے گا"۔
یہ اور بات ہے کہ بچے جب بارھویں کے 'چھلکے'میں سے سر نکالتے ہیں تو اُن کو "گُھٹلیوں کے دام" پتہ چلتے ہیں۔ لیکن بڑے بھی مجبور ہیں کہ اسی نطام کے تحت بچوں کو وہ یہی باور کرا سکتے ہیں کہ پڑھائی خاص کر انٹر میں جان توڑ محنت سے 'بچاکھچا' تو ملے گا، ورنہ جوانیاں 'منانے' میں اِس سے بھی جاؤ گے۔
پورے نمبروں سے ایک اور بات یاد آئی کہ راہ دکھائی کیلیے یہ بات یا کہانی بھی سننے میں آتی تھی کہ ڈاکتر علامہ صاحب نے امتحان میں صرف ایک نمبر کم ہونے پر کورٹ میں مقدمہ کردیا تھا۔ اِس سنی سنائی کہانی سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے بڑوں کے نزدیک علامہ صاحب کے نظریے،سوچ اور شاعری کے بجائے اُن کے امتحان میں لیے گئے 'مارکس' کی ذیادہ ترغیب و ترویج تھی۔
ویسے ہمارے یاں 'مارکس' کا اتنا ذکر ہوا ہے کہ کمیونزم نظام رکھنے والے مُلکوں میں بھی نہیں ہوا ہوگا۔ کارل مارکس کو پتہ ہوتا تو وہ اپنا نام بدل لیتا کہ کیریئر اور پیسے بنانے کیلیے نمبروں کے پیچھے بھاگنا مارکسزم کا اُلٹ اور سرمایہ دارانہ نظام کا تحفظ ہے۔
اگرچہ پرائیویٹ یونیورسٹیوں، مزید شعبوں کے آنے اور داخلہ ٹیسٹوں کی بدولت بارہویں کا زندگی پر 'دارومدار' کم ہوا ہے، لیکن ابھی بھی 'نتیجوں' کی اہمیت برقرار ہے۔ ایک تو پرائیوٹ یونیورسیٹیوں کی فیسیں اب تو مڈل کلاس طبقے کی پہنچ سے بھی باہر ہو چکی ہے، دوسرا انجینیر اور خاص کر ڈاکٹر جو نام اور دام کما رہے ہیں، بننے کیلیے انٹر کے نتائج آج بھی بنیاد رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ طالبعلموں کا نقل اور رٹے سے بھرپور بورڈ نظام میں پیپروں کے رزلٹ دیکھ کر ہی پتہ لگ جاتا ہے کہ آگے وہ کتنے بڑے 'طوطے' ثابت ہوں گے۔
ہمارا معاشرتی اور تعلیمی نظام ابھی تک دقیانوسی ہے۔ سمجھ کے بجائے جو جتنا رٹاّ لگائے گا، اتنا ہی اس کے مارکس آنے اور 'کامیاب' ہونے کا چانس ذیادہ ہے۔ نتیجتاً ایسے تعلیمی نظام سے برآمد ہونے والوں میں تخلیقی صلاحیت اورجدّت کا فقدان ہے جو کہ ترقی میں پیچھے رہنے کا باعث ہے، مگر بورڈ رزلٹ دیکھیں تو یہاں نئے سے نئے ریکارڈ بن رہے ہیں ۔ ممتحنوں کا بس نہیں چلتا ورنہ وہ گیارہ سو میں سے بارہ سو نمبر دے دیتے!
کچھ اور ایجاد نہ ہو لیکن کووڈ امتحانات، بورڈ کی مہربانی اور 117 طلباء کی نا قابل یقین 'نمبر پوری' سے گیارہ کا ایک محاورہ بنتا دکھائی دے رہا ہے، جس میں نمبر 'بنانے' والے بہت ہوں لیکن پلّے کچھ نہ ہو۔ مثال کے طور پر جملہ حاضر ہے: "ہماری حکومت کی کارکردگی گیارہ سو بٹا گیارہ سو ہے"۔ اب تو سمجھ آگئی ہو گی۔

مصنف منصور ریاض ملکی اور بین الاقوامی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں