جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ حکومت اور ایف بی آر کے غصے کا مظہر ہے: سرینا عیسیٰ کی ایف بی آر ٹیکس جرمانے کی تصدیق

جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ حکومت اور ایف بی آر کے غصے کا مظہر ہے: سرینا عیسیٰ کی ایف بی آر ٹیکس جرمانے کی تصدیق
مسز سرینا عیسیٰ نے میڈیا کو جاری کردہ ایک تحریری بیان میں تصدیق کی ہے کہ ایف بی آر نے 164 صفحات کے حکم میں ان کے ذمہ 35 ملین روپے کا ٹیکس واجب الادا قرار دیا ہے۔

دو صفحات کے بیان میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کہتی ہیں کہ حکومت نے ان کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ موجود حکومت اور ایف بی آر کے غصے کا مظہر ہے۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا ہے کہ پیش آنے والے واقعات خود بول رہے ہیں کہ عمران خان حکومت نے اپنے پسندیدہ آلہ کاروں پر مشتمل ٹیم کے حضرات مرزا شہزاد اکبر، فروغ نسیم، انور منصور خان، عبدالوحید ڈوگر اور غیر خودمختار ایف بی آر اور اِس کے اہلکاروں محّمد اشفاق احمد اور ذوالفقار احمد کو استعمال میں لا کر حقیقت سے عاری بڑے بڑے دعووں سے کارروائی کا آغاز کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے عبدالحمید ڈوگر کے شکایت درج کروانے سے لے کر اب تک کی ایک بریف سمری دیتے ہوئے بتایا کہ کیسے حکومت نے سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد مشکوک انداز میں ایف بی آر کی چیئرپرسن مسز نوشین امجد کو ہٹا کر ایک عارضی چیئرمین ایف بی آر کو تعینات کیا۔ اپنے تحریری بیان کے پہلے صفحے کے پانچویں نکتے میں مسز سرینا عیسیٰ لکھتی ہیں کہ ایف بی آر کے کمشنر اِن لینڈ ریونیو ذوالفقار احمد نے 14 ستمبر 2020 کو ایک جاری کردہ 164 صفحات کے حکمنامے میں ایک مصنوعی گنجائش پیدا کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ مسز سرینا عیسیٰ کے ذمہ 35 ملین روپے ٹیکس واجب الادا ہے۔ مسز سرینا عیسیٰ ذوالفقار احمد پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ انہیں معلوم نہیں کہ یہ حکم ذوالفقار احمد کا اپنا لکھا لکھا ہوا ہے یا نہیں۔

جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ مزید لکھتی ہیں کہ ایف بی آر کمشنر ذوالفقار احمد نے ان کو بھجوائے گئے ایک بھی نوٹس میں جواب کے لئے قانونی طور پر طے شدہ 15 دن کی مہلت نہیں دی لیکن میں نے پھر بھی 9 جولائی 2020 کو 6 صفحات، 21 جولائی 2020 کو 10 صفحات، 10 اگست 2020 کو 19 صفحات اور 28 اگست 2020 کو 20 صفحات کا جواب جمع کروایا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اپنا دکھ بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ایف بی آر نے انہیں ان کے والد کی وفات کا سوگ منانے کی مہلت بھی نہیں دی۔ مسز سرینا عیسیٰ شک کا اظہار کرتی ہیں کہ ایف بی آر حکام نے ان کے والد کی وفات کے فوری بعد ان کو آٹھ نوٹس بھجوا کر سازش کی کہ وہ جواب نہیں دیں گی اور وہ جوابات کی عدم موجودگی میں یکطرفہ حکم جاری کر سکیں گے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کے سوموٹو نوٹس لینے تک وزیر اعظم عمران خان حکومت کی طرف سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ملنے والی قتل کی دھمکیوں پر ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کو بھی نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ حکومت نے بتایا نہیں کہ وہ چھ روز تک (ایف آئی آر کے اندراج کی) اپنی ذمہ داریوں سے غافل تھی یا ایک ایسے دہشت گرد کو متحرک کرنے کی پشت پر تھی جو سب کچھ خود اپنی زبان سے ایک ویڈیو میں کہہ رہا تھا۔

مسز سرینا عیسیٰ لکھتی ہیں کہ ذوالفقار احمد نے اپنے نوٹسز میں ان دستاویزات اور معلومات کا حوالہ دیا جو میرے بار بار مانگنے پر بھی مجھے مہیا نہیں کی گئیں لیکن میرے خلاف ان دستاویزات کے استعمال سے باز نہ آئے۔ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے انکشاف کیا کہ ایف بی آر نے اپنے حکم میں بھی متعلقہ ریکارڈ اور دستاویزات حکمنامے کا حصہ نہیں بنائیں جِن پر انحصار کرتے ہوئے ان کے ذمہ 35 ملین ٹیکس واجب الادا قرار دیا گیا ہے۔

اہلیہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید بیان کیا ہے کہ میں نے اپنے 28 اگست 2020 کو ایف بی آر میں جمع کروائے گئے بیان میں ٹیکس کمشنر ذوالفقار احمد سے درخواست کی تھی کہ مجھے سن لیں اور اِس کے لئے ایک تاریخ مقرر کر کے مجھے آگاہ کر دیں کہ کِس تاریخ کو کس مقام پر مجھے کتنے بجے آ کر جواب دینا ہوگا۔

مسز سرینا عیسیٰ نے خود کو سنے بغیر حکم جاری کرنے کی مذمت کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا مسٹر ذوالفقار احمد یہ بتانا پسند کریں گے کہ وہ سب ٹیکس دہندگان کے خلاف ان کو سنے بغیر فیصلے دیتے ہیں یا یہ خصوصی سلوک میرے ساتھ ہی روا رکھا گیا کیونکہ میری شادی ایک ایسے جج سے ہوئی ہے جِس کو ہٹانے کے لئے عمران خان حکومت بےچین ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے ٹیکس کمشنر ذوالفقار احمد کے حکم کو ایک من گھڑت افسانہ قرار دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ اِس فیصلے کو چیلنج کریں گی۔ مسز سرینا عیسیٰ کہتی ہیں کہ اِس افسانے میں ان کی زرعی آمدن کو شمار کیے بغیر اور کراچی امریکن سکول سے 1982 سے کے کر آج تک کی حاصل کردہ آمدن پر ادا کردہ ٹیکس کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف 2007 سے 2012 تک ادا کردہ ٹیکس کو شمار کیا ہے۔ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ مزید کہتی ہیں کہ ایف بی آر حکام نے ایک ایسا افسانہ تراشا ہے جِس میں ان کی طرف سے جمع کروائی گئی کراچی کے پوش علاقہ کلفٹن میں فروخت کی گئی دو جائیدادوں کے فروخت معاہدے میں درج منافع کا بھی شمار نہیں کیا گیا۔ مسز سرینا عیسیٰ سوال اٹھاتی ہیں کہ ساری عمر نوکری کر کے وہ اتنا بھی نہیں کما سکتی جِس سے وہ ایک کنال بنگلہ کی مالیت کے برابر کی جائیدادیں خرید سکیں؟

جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ اپنے جاری کردہ بیان کے سولہویں اور آخری نکتے میں پوچھتی ہیں کہ کیا ان کے ساتھ یہ خصوصی سلوک اِس لئے کیا گیا کیونکہ انہوں نے جرات دکھاتے ہوئے عوامی دفتر کا عہدہ رکھنے والے وزیر اعظم عمران خان، مرزا شہزاد اکبر، فروغ نسیم، محّمد اشفاق کے ٹیکس گوشوارے مانگے تھے؟ مسز سرینا عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ یہ اشخاص غیر قانونی طور پر میرے ٹیکس گوشواروں تک رسائی حاصل کر کے ان کو افشا کر دیتے ہیں جب کہ میں کوئی عوامی یا سرکاری عہدہ بھی نہیں رکھتی ہوں یا پھر شاید اِس کی وجہ یہ ہے کہ میں ایک ایسے جج کی بیوی ہوں جو کسی بھی دباؤ کو خاطر میں نہیں لاتے یا پھر اِس کی وجہ وہ امتیازی قدامت پسند سوچ ہے جو سمجھتی ہے کہ ایک عورت خود کما کر اپنے اخراجات نہیں چلا سکتی یا پھر اِن کو اِس بات سے تکلیف پہنچ رہی کہ میں ابھی بھی نوکری نہ کرتے ہوئے بھی وزیراعظم اور ان کے تمام مشیروں کے کل ملا کر ادا کردہ ٹیکس سے زیادہ ٹیکس جمع کروا رہی ہوں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے جاری کردہ جواب کو پڑھا جائے تو بظاہر ایف بی آر نے اِن جائیدادوں کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بے نامی جائیدادیں قرار نہیں دیا جب کہ حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اِن جائیدادوں کا بے نامی دار قرار دے کر مِس کنڈکٹ کا الزام لگا کر ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس دائر کیا تھا۔ ایف بی آر کی رپورٹ سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے رجسٹرار سپریم کورٹ کو بھجوائی جائے گی جو سپریم جوڈیشل کونسل کے سیکرٹری بھی ہیں اور اب یہ رپورٹ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی ٹیبل پر آئے گی جو سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ ہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ حکومت اپنے ’خصوصی ذرائع‘ استعمال میں لانے کی کوشش کر رہی ہے کہ چیف جسٹس ایف بی آر کی جمع کروائی ہوئی رپورٹ کی بنیاد پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں سو موٹو کارروائی کا آغاز کر دیں۔ اب دیکھنا ہوگا کہ چیف جسٹس گلزار احمد ایف بی آر رپورٹ کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں تبدیل کر کے حکومتی خواہش پوری کرتے ہیں یا ایف بی آر رپورٹ کو مسز سرینا عیسیٰ جو ایک پرائیویٹ شہری ہیں ان کے اور ایف بی آر کے درمیان ایک ضابطہ کی کارروائی قرار دے کر معاملے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی راہداریوں سے تناؤ کا خاتمہ کرتے ہیں۔

معزز چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کا اگلا قدم یا تو سپریم کورٹ کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگائے گا یا ساکھ پر اٹھائے گئے سوالات کے خاتمے کی بنیاد رکھے گا۔ بہرحال بال اب چیف جسٹس گلزار احمد کی کورٹ میں ہے۔