عمران خان سکول کالج کے زمانے سے ہمارے ہیرو ہیں۔ پاکستان کے زیادہ تر نوجوانوں کی طرح ہمارا پہلا پیار بھی کرکٹ ہی تھا، دو کرکٹرز اس وقت بیسٹ پرفارمر تھے۔ عمران خان اور جاوید میانداد۔ میانداد ہمارے جیسے گلی محلے کے لونڈے سے لگتے تھے، خان صاحب اپر کلاس تھے، لاجواب باؤلر، نخریلے، گوریوں اور بھارتی اداکاراؤں سے افیئرز اور سب سے بڑھ کر گوروں جیسے نین نقش ہم دیسیوں کو مرعوب کرنے کے لئے بہت تھے۔ وہ تو خان صاحب بہت لیے دیے رہتے تھے، نہیں تو ہم نے تو پنجابی کے اس محاورے کے مطابق جس میں خواجہ سراؤں کے گھر لڑکا ہوا تھا، خان صاحب کو بھی چوم چوم کر مار دینا تھا۔ خان صاحب کے غرور نے انہیں بچا لیا۔
جی، ہمیں اسی وقت ہی پتہ چل گیا تھا کہ خان صاحب مغرور ہیں۔ ہمارے پاس ایک آٹو گراف بک ہوا کرتی تھی۔ ملتان میں جو بھی اچھے کرکٹر اس دور میں آئے، چاہے وہ پاکستانی ہوں یا غیر ملکی؛ کلائیو لائیڈ، سنیل گواسکر، بشن بیدی، ظہیر عباس، جاوید میانداد، کپل دیو اور لاتعداد کرکٹرز کے آٹو گراف ہمارے پاس تھے۔ نہیں تھے تو عمران خان کے نہیں تھے۔ کیونکہ ان دنوں اخبار میں ہم نے تصویر دیکھی کہ عمران خان ایک لڑکے کو بیٹ مار رہے ہیں جو ان سے آٹو گراف مانگ رہا تھا۔ سچ پوچھیں تو ہم ڈر گئے۔ کبھی ہمت نہیں ہوئی ان کے نزدیک پھٹکنے کی۔
پھر انہوں نے کینسر ہسپتال کے لئے چندہ مانگنا شروع کیا لیکن ان کا انداز یہی تھا کہ چندہ نہیں مانگ رہے ہیں یوں لگتا تھا ، احسان کر رہے ہیں۔ ہم نے بھی پہلی مرتبہ دیکھا چندہ دینے والے احسان مند تھے لینے والا محسن تھا۔ ہم کیا کر سکتے تھے؟ بھئی ایک تو ان کی طلسماتی شخصیت، پھر ورلڈ کپ کے فاتح کپتان۔ وہ اوپر جس پنجابی محاورے کا ذکر کیا تھا وہ بھی بدل گیا۔ پہلی دفعہ لڑکے کی بجائے اسے والہانہ انداز میں چومنے والوں کو مرتے دیکھا۔
ہماری عمر کے لوگوں نے اگر زبردستی بھلا نہیں دیا تو انہیں یاد ہو گا کہ خان صاحب کی اس مہم میں دلدار پرویز بھٹی اور استاد نصرت فتح علی خان کا کردار بہت اہم تھا۔ استاد کی سحر انگیز موسیقی اور دلدار بھٹی کی مزاح سے بھر پور کمپیئرنگ نے چندے کے لئے سجائی گئی محفلوں میں جان ڈال دی۔ بدقسمتی سے دونوں فنکار کچھ عرصے کے بعد وقفے وقفے سے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ہم نے بہت ڈھونڈا لیکن ہمیں کسی اخبار میں یہ خبر نہیں ملی کہ خان صاحب نے ان کے جنازوں میں شرکت کی۔ دو ایک مرتبہ کسی انٹرویو میں خان صاحب نے ان کے بارے میں اچھا بولنے کی سخاوت ضرور کی لیکن جن لوگوں نے بغیر معاوضے کینسر اسپتال بنانے میں ان کا بھر پور ساتھ دیا، خان صاحب نے کبھی ان کی خدمات کا اعتراف ایک مرتبہ بھی ایسے نہیں کیا جس طرح وہ اب تک کم از کم ستر ہزار مرتبہ خود کو خراج تحسین پیش کر چکے ہیں۔
اصل میں کام ہونے کے بعد وہ شریک لوگوں کو شاباشی دینا بھول جاتے ہیں جس طرح ورلڈ کپ جیتنے کے بعد تقریر میں اپنے ساتھی کرکٹرز کو بھول گئے تھے۔ ہمیں اندازہ ہونے لگا خان صاحب صرف مغرور نہیں بلکہ ان کے سینے میں شاید دل ہی نہیں ہے۔ دلدار بھٹی مرحوم اور استاد نصرت فتح علی خان کے بعد معین اختر نے بھی خان صاحب کا بھر پور ساتھ دیا۔ میری یادداشت کے مطابق معین اختر نے ہی پہلی مرتبہ ان کو ’کپتان‘ کا لقب دیا، ان کا انتقال بھی کچھ سال پہلے ہوا تھا، ہم نے خان صاحب کو ان کے بارے میں بھی کچھ کہتے نہیں سنا۔ مجھے لگتا ہے سیاست میں ان کے دیرینہ ساتھی مرحوم نعیم الحق کی روح کو بالکل حیرت نہیں ہوئی ہوگی جب خان صاحب ان کے جنازے میں بھی شریک نہیں ہوئے۔
ملتان نے 2013 کے الیکشن میں ان کو دو نشستیں دیں، مخدوم جاوید ہاشمی کے استعفے کے بعد جب ملتان میں جلسہ ہوا تو گرمی و حبس کی وجہ سے سات لوگ اپنی جان سے گئے۔ اس دن تو خان صاحب بغیر افسوس کے روانہ ہو گئے۔ کچھ دن بعد وہ ان لوگوں کے گھروں میں تعزیت کرنے گئے اور ایک نوجوان لڑکے کی ماں نے انہیں بتایا کہ ان کے مرحوم بیٹے عمران کا نام ان سے ہی عقیدت میں رکھا گیا تھا۔ خان صاحب بہت متاثر ہوئے۔ اپنے شدید دکھ کے اظہار کے لئے اس مرحوم کے لئے ایک ٹویٹ بھی کی جو بہت عرصے تک ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ میں ان کی ’لائک‘ کردہ واحد ٹوئیٹ کے طور پر موجود رہی۔ ہم اپنے اس ہم شہر کی عظمت کے قائل ہو گئے جو ہمارے خیال کے مطابق پہلی مرتبہ خان صاحب کے دل میں درد جگا گیا۔
جب خان صاحب وزیراعظم بنے تو ایک نئی دل شکن روایت دیکھنے کو ملی۔ عام طور پر ماضی میں ہم دیکھتے تھے کہ کسی بھی غیر معمولی واقعے کی صورت میں، خاص طور پر جب کسی ظلم، دہشت گردی، حادثے میں کسی کی بھی جان گئی تو ہمارے وزرا اعظم، وزرا اعلیٰ حتیٰ کہ آرمی چیف تک جو ہمارے ملک میں سب سے طاقتور شخصیت ہوتے ہیں، متاثرین کی دہلیز تک پہنچے۔ لواحقین کے ساتھ دکھ اور یک جہتی کا اظہار کیا۔ مگر خان صاحب نے کمال بے حسی سے چاہے وہ شہید ایس پی داؤڑ کے لواحقین ہوں یا سانحہ ساہیوال کے متاثرہ بچے، ان کی دہلیز پر جانے کی بجائے انہیں ایوانِ اقتدار میں بلایا اور ان سے اپنے مبینہ سوگ کا اظہار کیا۔ کوئی بے حسی سی بے حسی تھی۔
کوئی دو دن پہلے خان صاحب نے فرمایا کہ ہمارے ہاں 190 لوگ مرنے تھے، ابھی تک آدھے بھی نہیں مرے، تو ان کی اس بات میں موجود سفاکی سے ہماری ریڑھ کی ہڈی میں ایک سرد لہر دوڑ گئی۔ ہمیں پھر یقین آ گیا کہ خان صاحب دردِ دل سے محروم ہیں۔ وہ ہمارے وزیر اعظم ہیں، اگر وہ بے حس ہو جائیں گے تو اس وبا میں ہمارا کیا حشر ہو گا؟ یہ سوچ کر ہی روح کانپ گئی۔ ہم نے خود کو تسلی اور دلاسہ دینے کے لئے بہت دنوں بعد ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ کھولا کہ ان کی ہمارے ہم شہر کے لئے ہمدردی کا ٹوئیٹ پڑھیں، لیکن ہمارے ڈوبتے دل کو اس آخری تنکے کا سہارا بھی نہیں ملا۔
خان صاحب وہ ٹوئیٹ بھی unlike کر چکے ہیں!