انٹر سروسز انٹیلی جنس کے سابق سربراہ جنرل (ر) فیض حمید جنہوں نے 2018 کے انتخابات سے قبل ملک میں ہونے والی سیاسی انجینئرنگ میں مرکزی کردار کیا اور 'پروجیکٹ عمران خان' کی تیاری، لانچنگ اور اسے کامیاب کروانے میں پیش پیش تھے، ان سے متعلق تازہ خبر یہ آئی ہے کہ انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اظہار لاتعلقی کر دیا ہے۔ صحافی اسد علی طور کو یہ خبر دی ہے سینیئر کورٹ رپورٹر حسن ایوب نے۔
یوٹیوب پر اپنے حالیہ وی لاگ میں صحافی اسد علی طور نے حسن ایوب کے ساتھ گفتگو کی جس میں حسن ایوب نے مصدقہ ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض حمید نے سفید جھنڈا لہرا دیا ہے اور انہوں نے ' پی ٹی آئی پروجیکٹ' سے ہاتھ اٹھا لیے ہیں۔ جنرل فیض حمید نے پروجیکٹ عمران خان لانچ کیا تھا اور ابھی تک اس کی سپورٹ کر رہے تھے مگر اب وہ اس حمایت سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ فیض حمید اب جی ایچ کیو سے معافی مانگ رہے ہیں کیونکہ وہاں سے ان کے خلاف ڈسپلن کی خلاف ورزی پر کارروائی ہو سکتی ہے۔ انہیں معافی ملتی ہے یا نہیں، اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
جنرل فیض حمید نے عمران خان کو پچھلے ایک سال میں دوبارہ سے مقبولیت حاصل کرنے میں بھرپور مدد اور تعاون فراہم کیا ہے۔ بطور کور کمانڈر پشاور انہوں نے خیبر پختونخوا میں لوکل باڈیز کے دوسرے راؤنڈ کے الیکشن مینیج کر کے پی ٹی آئی کو جتوایا تھا۔ اس طرح انہوں نے پی ٹی آئی کے مردہ گھوڑے میں ایک بار پھر سے جان ڈال دی تھی۔ اسد طور نے کہا کہ ایک جنرل جس نے منتخب وزیر اعظم کو نااہل کروایا، سیاسی انجینئرنگ میں بنیادی کردار ادا کیا، پی ٹی آئی کو عام انتخابات جتوائے، عمران خان کو صادق اور امین قرار دلوایا، اربوں کی جائیدادیں بنائیں، اس کو جی ایچ کیو کی جانب سے اتنی آسانی سے معافی نہیں ملنی چاہئیے۔
گفتگو کے دوران حسن ایوب نے سپریم کورٹ میں آج کی سماعت کا احوال بھی سنایا۔ انہوں نے بتایا کہ معلوم نہیں اس کا تعلق انٹیلی جنس سربراہان کی جانب سے چیف جسٹس اور دو ساتھی ججز کو دی جانے والی بریفنگ کے ساتھ ہے یا نہیں تاہم عدالت کا ماحول آج بدلا بدلا نظر آ رہا تھا۔ کمرہ عدالت میں آج کی سماعت کے دوران وہ گھن گرج نہیں نظر آئی جو اس سے پہلے دکھائی دیتی تھی۔ حالات کے بدلاؤ کا ایک اور اشارہ بھی ملا کہ چیف جسٹس صاحب نے اس سے قبل خود ان چیمبر بریفنگ کی تجویز کو رد کر دیا تھا مگر آج وہ کہہ رہے تھے کہ وزارت دفاع کے اہلکاروں نے جس قدر اچھے انداز میں ان چیمبر بریفنگ دی اس سے صورت حال واضح ہو گئی ہے۔
حسن ایوب نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چودھری سے میں نے آج سوال کیا کہ کیا آپ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے ساتھ کھڑے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ جب تک چیف جسٹس آئین کے ساتھ کھڑے ہیں ہم ان کے ساتھ ہیں۔ ہم چیف جسٹس کے ساتھ نہیں ہیں، ہم آئین کے ساتھ ہیں۔ حسن ایوب کے مطابق فیصل چودھری یہ کہنا چاہتے تھے کہ جب تک چیف جسٹس ہمارے مؤقف کی تائید کریں گے ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 14 مئی کو الیکشن کا معاملہ ختم ہو چکا اور راوی اب چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ پی ٹی آئی مذاکرات کی میز پر نہیں آئے گی، آتی بھی ہے تو مذاکرات کامیاب نہیں ہوں گے۔ جو پارٹی باقی سیاسی جماعتوں کے ساتھ پارلیمنٹ میں نہیں بیٹھ سکتی وہ ان کے ساتھ مل کر الیکشن کی تاریخ کیسے طے کرے گی؟ یہ سارے مذاکرات جب ناکام ہو جائیں گے تو سپریم کورٹ 8 اکتوبر کو الیکشن کروانے کا حکم جاری کر دے گی اور یہ الیکشن اس وقت ہوں گے جب چیف جسٹس عمر عطا بندیال ریٹائر ہو چکے ہوں گے۔
سینیئر وکیل شاہ خاور نے اسد طور کو بتایا کہ جب تک اتفاق رائے پیدا نہیں ہو جاتا تب تک ملکی فضا اور حالات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ ملک اور اداروں کو بچانے کے لیے ہم یہ پٹیشن لے کر آئے ہیں کہ پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات کروائے جائیں۔ سیاسی جماعتیں اگر ایک تاریخ پر متفق ہو جاتی ہیں تو عدالت بھی رستہ دے دے گی۔ جب مذاکرات ہوں گے تو سب کو اپنے اپنے مؤقف سے تھوڑا پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ اداروں اور ملک کو بچانے کا یہ آخری موقع ہے۔ اگر معاملات ٹھیک نہ ہوئے تو تیسری قوت کو راستہ مل سکتا ہے۔
ٹیگز: 2018 کے عام انتخابات, آرمی چیف جنرل عاصم منیر, پنجاب میں انتخابات, پی ٹی آئی پروجیکٹ, تین رکنی بنچ, جنرل (ر) فیض حمید, جی ایچ کیو, چیف جسٹس عمر عطاء بندیال, ڈی جی آئی ایس آئی, سلیکٹڈ وزیر اعظم, سیاسی انجینیئرنگ, عام انتخابات, عمران خان پروجیکٹ, عمران خان صادق اور امین, کور کمانڈر پشاور, نواز شریف کی نااہلی