یونیورسٹیوں اورعام حالات میں بھی لڑکیوں کو حراساں کرنے کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں ۔ ایسے میں یونیورسٹیاں اپنے ادارے کی ساکھ بچانے کے خاطر کوئی قدم نہیں اٹھاتیں۔ لہذا مجرمان کو سزا نہیں مل پاتی ۔ اور اس صورتحال میں وہ خواتین جو اپنے ساتھ ہونے والی جنسی ہراسگی کے واقعات کو رپورٹ کرتی ہیں یا اپنے ہی گھر والوں سے مدد طلب کرتی ہیں، ان میں سے اکثر کا تعلیمی سفر وہیں رک جاتا ہے۔ یہی بات ان خواتین کے لئے بھی صائب ہے جو دفاتر میں کام کرتی ہیں۔ اکثر کو ایسے واقعات رپورٹ کرنے پر اہل خانہ کی جانب سے دباؤ کی وجہ سے نوکریاں چھوڑنی پڑتی ہیں۔
ایسی خواتین جن کا تعلق پسماندہ علاقوں سے ہو ان پر معاشرتی دباؤ اور پابندیاں زیادہ سے زیادہ ہوتی ہیں ایسے میں انکے ساتھ جنسی ہراسگی کے واقعات ان کے لئے دوگنی قیمت کا باعث بنتی ہیں۔
ایسا ہی مبینہ واقعہ مبینہ طور پر یونیورسٹی آف میانوالی کے زولوجی ڈیپارٹمنٹ کی 16 طالبات کا ہے جن کا الزام ہے کہ وہ ایک پروفیسر کے ہاتھوں جنسی ہراسگی کا شکار ہو چکی ہیں۔ اس حوالےسے ایک ٹویٹ بھی سامنے آئی ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ ہم یونیورسٹی آف میانوالی کی 16 طالبات زوالوجی کے ایک پروفیسر کے ہاتھوں جنسی هراسگی کا شکار ہو چکی ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی مطالبہ کیا گیا ہے کہ کوئی ہے جو ہمارا ساتھ دے ؟
https://twitter.com/Sayyada_Z/status/1295032570724388864
ایک اور ٹویٹ میں کہا گیا کہ میں دنیا سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا جب ہم خودکشیاں کر لیں گی تب ہمارے حق میں آواز اٹھے گی؟ کیا ہم زندوں کا کوئی حق نہیں؟ یونیورسٹی آف میانوالی کے زوالوجی کے ایک پروفیسر نے ہماری کلاس کی ایک نہیں 16 طلبات کو جنسی ہراس کیا۔ ہمارا ایک سیمسٹر ذہنی کوفت میں خراب کیا۔
https://twitter.com/Sayyada_Z/status/1295034248433475586
نیا دور نے موقف جاننے کے لئے یونیورسٹی آف میانوالی کی انتظامیہ سے رابطہ کیا تو یونیورسٹی کے ڈپٹی رجسڑار محمد اسامہ نے بتایا کہ معاملے پر سکریٹری ہائیر ایجوکیشن نے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ اب جو بھی تحقیقات ہوں گی وہی کمیٹی اس سے آگاہ کرے گی۔