پاکستان کی 75ویں سالگرہ پر جمہوری قوتیں اداروں سے لڑ رہی ہیں

پاکستان کی 75ویں سالگرہ پر جمہوری قوتیں اداروں سے لڑ رہی ہیں
پاکستان 75 برس کا ہو گیا۔ یہ سالگرہ باعثِ مسرت ہونی چاہیے لیکن ساتھ ہی ہمیں اپنا محاسبہ بھی کرنا ہوگا۔ بہت سے پاکستانی ہماری اس کامیابی کو فخریہ بیان کرتے ہیں کہ ہم دنیا کی پہلی مسلمان ایٹمی طاقت ہیں۔ لیکن یہ ایٹمی ہتھیار پاکستان کو کیسے بچائیں گے اگر ہمارے ادارے ہی برباد ہو رہے ہیں؟ فوج یقیناً طاقتور ہے۔ لیکن ہماری پارلیمان، عدلیہ اور میڈیا دن بدن کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔

یہ ہمارے لئے باعثِ شرم ہے کہ 75 میں سے 32 سال ہم پر چار فوجی آمر حکمران رہے۔ باقی کے 43 برس میں 29 وزرائے اعظم نے حکومت کی۔ آج تک کسی وزیر اعظم نے 5 برس پورے نہیں کیے۔ آزادی سے اب تک 3 مختلف آئین 5 مرتبہ توڑے جا چکے ہیں۔

یہ درست ہے کہ پاکستان جو کبھی ایک چھاؤنی ریاست کہلاتا تھا 2007 سے اب تک فوجی آمریت سے بچا رہا ہے۔ لیکن جمہوریت اب بھی انتہائی کمزور ہے۔ حال ہی میں Economist Intelligence Unit نے پاکستان کو hybrid یعنی مخلوط حکومت قرار دیا یعنی ایک ایسا ملک جو مکمل جمہوریت نہیں کہلا سکتا گو کہ اس میں جمہوری عوامل موجود ہیں۔ یہ کوئی راز نہیں کہ 2018 میں جرنیلوں نے الیکشن میں دھاندلی کر کے عمران خان کو اقتدار دیا۔

جب عمران حکومت میں پاکستان نہیں چل پایا تو فوج غیر جانبدار ہو گئی۔ رواں برس عمران خان نے اپنی حکومت بچانے کے لئے اسمبلی تحلیل کر کے ایک آئینی بحران کھڑا کر دیا لیکن بالآخر اسے ایک پارلیمانی تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے علیحدہ کر دیا گیا۔ اس نے پھر امریکہ کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع کر دیا۔ اس نے فوجی قیادت کی غیر جانبداری کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور انہیں غدار قرار دیا۔ اس نے انہی جرنیلوں کو بلیک میل کر کے اقتدار میں واپس آنے کی کوشش کی جنہوں نے ماضی میں اس کو وزیر اعظم بنایا تھا۔ یہ حربہ لیکن کارگر نہ ہوا۔

امریکہ مخالف بیانیے اور ملک کے معاشی بحران نے اسے اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت کو کسی حد تک بحال کرنے میں مدد دی۔ اب اس کے سیاسی مخالفین اس کو کرپشن الزامات اور ممنوعہ فنڈنگ حاصل کرنے کی پاداش میں نااہل کرانا چاہتے ہیں۔ 2017 میں سپریم کورٹ نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل کر کے عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ کے لئے راہ ہموار کی تھی۔ موجودہ حکومت اب یہی دہرانا چاہتی ہے۔ اگر یہ جائز ہے تو بھی ایک اور مقبول رہنما کی نااہلی مزید سیاسی عدم استحکام پیدا کرے گی۔

پاکستانی عدلیہ کی ساکھ کوئی متاثر کن نہیں۔ World Justice Project دنیا بھر میں نظامِ عدل کو پرکھتا ہے اور اس کے مطابق پاکستان قانون کی حکمرانی کے اعتبار سے دنیا کے 139 میں سے 130ویں نمبر پر ہے۔ تاریخی طور پر آمروں اور ججوں کے اکٹھ نے پاکستان میں جمہوریت کو کمزور کیا ہے۔ پاکستانی ججوں کو خود کو سیاست سے دور رکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک جانب عمران خان فوج کی 'غیر جانبداری' کو چیلنج کر رہا ہے اور دوسری طرف حکومت عدالتوں سے عمران خان کو نااہل کروانے کی کوشش کر رہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں اداروں ہی سے لڑ رہے ہیں۔

طاقت کے کھلاڑیوں میں اس جنگ کی زد میں میڈیا کی آزادی بھی آ چکی ہے۔ 2022 کے World Press Freedom Index کے مطابق پاکستان دنیا کے 180 ممالک میں سے 157ویں نمبر پر ہے۔ 2018 میں عمران خان کے حکمران بننے کے بعد اگلے چار سال میں پاکستان 18 پوائنٹس نیچے گر چکا ہے۔ ٹی وی چینل بند کیے گئے، صحافیوں پر حملے کیے گئے، ان کی گرفتاریاں ہوئیں اور ان پر پابندیاں بھی لگیں۔

عمران خان کے اقتدار سے نکلنے کے بعد بھی میڈیا کی آزادی کو خطرات لاحق ہیں۔ جب میرے ساتھی صحافیوں اسد علی طور اور ابصار عالم پر گذشتہ برس حملے ہوئے تھے تو اس وقت کے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ان سے ملنے ان کے گھر گئے تھے اور میڈیا کی آزادی کے ساتھ کھڑے رہنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ اب وہ وزیر اعظم ہیں اور ان کی حکومت نے ARY پر پابندی عائد کر دی ہے جو کہ عمران خان کا حامی چینل ہے۔ اس چینل کے مالک اور اینکرز کو بغاوت کے مقدمات کا سامنا ہے کیونکہ انہوں نے فوج پر تنقید کی تھی۔ جب پچھلے سال مجھ پر بغاوت کے الزامات لگے تھے تو یہ ARY کے اینکر مجھے سلاخوں کے پیچھے دیکھنا چاہتے تھے۔ ایک اینکر نے مجھے پاکستان کا دشمن قرار دیا کیونکہ میں نے اپنے ایک ساتھی صحافی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس پر حملہ آور ہونے والوں کے خلاف سخت تقریر کی تھی۔ اس کے باوجود میں نے کبھی ملک نہیں چھوڑا۔ ماضی کے میرے یہ نقاد آج خود ایسے ہی الزامات کی زد میں ہیں۔ میں ان کو خاموش کرانے کے حق میں نہیں۔

میڈیا کی آزادی جمہوریت کا ایک لازمی ستون ہے۔ ایسی کسی جمہوریت کا تصور محال ہے کہ جس میں سماجی اور سیاسی مسائل کے حل کے لئے بڑے پیمانے پر مباحث نہ ہوتے ہوں۔ گذشتہ برس مجھے بغیر کسی عدالتی حکم کے 9 ماہ تک ٹی وی سکرین سے دور رکھا گیا۔ چند روز قبل ایک اور اینکر عمران ریاض خان کو اس کے چینل نے بغیر کسی وجہ کے ٹی وی سکرین سے ہٹا دیا۔ ایسے حربے ناصرف میڈیا کو بطور ادارہ کمزور کریں گے بلکہ لامحالہ پاکستانی جمہوریت کو بھی ایک مذاق بنا کر رکھ دیں گے۔

مجھے پتہ ہے طاقت کے ایوانوں میں کچھ لوگوں کو یہ بات پسند نہیں آئے گی کہ میں ان لوگوں کا ساتھ دے رہا ہوں جنہوں نے میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ مگر میں نہیں سمجھتا انتقام ہمارے مسائل کا حل ہے۔ میں سمجھتا ہوں عمران خان کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ نواز شریف کی نااہلی کی حمایت کرنا ایک غلطی تھی۔ نواز شریف کو بھی عمران خان کی نااہلی کی مخالفت کرنی چاہیے۔

صدر عارف علوی کا تعلق سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی سے ہے جس کے سربراہ عمران خان ہیں۔ شہباز شریف نواز شریف کا چھوٹا بھائی ہے جس نے 1998 میں پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا تھا۔ کیا طاقت کے کھیل کے یہ دو کھلاڑی ایک ایسا مکالمہ شروع نہیں کر سکتے جس میں تمام سیاسی سٹیک ہولڈر جمہوری اداروں کی مضبوطی کی خاطر حصہ لیں؟ سب سے بہتر راستہ قانون کی عملداری اور آئین کی بالادستی ہی کا ہے۔ صرف یہی اداروں کو تباہ ہونے سے بچا سکتے ہیں۔




حامد میر کا یہ مضمون واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوا جسے نیا دور کے قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔

حامد میر پاکستان کے مایہ ناز صحافی، کالم نگار اور اینکر پرسن ہیں۔ وہ واشنگٹن پوسٹ میں کالم لکھتے ہیں۔