Get Alerts

گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ کیا کہانی سناتی ہے؟

2007 میں صدر پاکستان نے ترمیم کر کے ناردرن ایریاز فریم ورک آرڈر 1994 کو شمالی علاقہ جات گورننس آرڈر کا نام دیا اور قانون ساز کونسل کو قانون ساز اسمبلی کا درجہ دیا۔ 2009 میں صدر پاکستان آصف زرداری نے گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر کا نفاذ کیا۔

گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ کیا کہانی سناتی ہے؟

72،496 مربع کلومیٹر پر محیط یہ علاقہ جو پاکستان کے شمال میں واقع ہے گلگت بلتستان کہلاتا ہے۔ گلگت بلتستان عہد قدیم سے ہی انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے جس کی بدولت یہ خطہ آج بھی عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ گلگت ڈوگروں کے تسلط سے یکم نومبر 1947 کو آزاد ہوا اور اسی دن عبوری حکومت کا قیام عمل میں لیا گیا جس کے تحت شاہ رئیس خان کو صدر مقرر کیا گیا۔ 16 دن تک آزاد جمہوریہ میں عبوری حکومت قائم کی گئی اور ساتھ ہی قائد اعظم محمد علی جناح کو خطوط لکھے گئے جن میں گلگت کو فی الفور پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے اور نظم و نسق سنبھالنے کی درخواست کی گئی۔

16 نومبر کو حکومت پاکستان کا نمائندہ گلگت پہنچا اور گلگت باقاعدہ پاکستان میں شامل ہو گیا جس پر حکومت پاکستان نے ایف سی آر لاگو کیا اور گلگت کو این ڈبلیو ایف پی کے پولیٹیکل ریذیڈنٹ کے ماتحت کر دیا گیا۔ بلتستان 14 اگست 1948 کو آزاد ہوا اور پاکستان نے اپنا نمائندہ بھیج کر اسے بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا۔

دیامر کی بات کی جائے تو یہ علاقہ 1952 تک علیحدہ حیثیت میں تھا۔ 1952 میں باقاعدہ مشروط معاہدے کے ذریعے پاکستان میں شامل ہوا۔ اس طرح گلگت بلتستان باقاعدہ پاکستان کا حصہ بن گیا۔ کچھ عناصر گلگت بلتستان کے عوام کے مفادات کو نقصان پہنچانے کیلئے جی بی کی آئینی حیثیت سے متعلق متضاد بیانات دیتے چلے آ رہے ہیں جو سراسر غلط ہے۔ جی بی پاکستان کا حصہ تھا، ہے اور رہے گا۔ پاکستان نے گلگت بلتستان کو اپنا اٹوٹ انگ سمجھتے ہوئے 1959 میں ملک کے دوسرے حصوں کی طرح ولیج ایڈ پروگرام کا آغاز جی بی میں بھی کیا اور بعدازاں 1962 میں اس ادارے کا نام تبدیل کر کے بنیادی جمہوریت رکھا گیا۔

1969میں جی بی کو ایک الگ انتظامی اکائی کی حیثیت دی گئی، اسے ناردرن ایریاز کا نام دیا گیا اور مشاورتی کونسل کی بنیاد رکھی گئی۔ 1970 میں جی بی کی تاریخ کے پہلے عام انتخابات کے ذریعے ممبران کا انتخاب کیا گیا جن میں گلگت سے 8 اور بلتستان سے 6 نمائندے منتخب ہوئے اور کونسل چیئرمین کا عہدہ ریذیذنٹ کو دیا گیا۔ 1971 میں ناردرن ایریاز ایڈوائزری کونسل کا نفاذ کیا گیا اور ایف سی آر کا خاتمہ کیا گیا۔

3 جولائی 1975 کو حکومت پاکستان نے ناردرن ایریاز کونسل لیگل فریم ورک آرڈر 1975 کا نفاذ کیا اور نئی اصلاحات پیش کی گئیں۔ اس آرڈر کے نتیجے میں ایڈوائزری کونسل کو ناردرن ایریاز کونسل میں تبدیل کر دیا گیا اور وزیر برائے امور کشمیر و شمالی علاقہ جات کو اس کونسل کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ اس کے بعد نئے قوانین وضع کیے گئے جو مندرجہ ذیل ہیں؛

ناردرن ایریاز الیکشن آرڈر

ناردرن ایریاز الیکشن رولز

ناردرن ایریاز الیکٹورل رولز 1975

خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد یہ کونسل دو سال کے لیے معطل ہوئی اور پھر ختم کر دی گئی۔ 1979 میں مزید اصلاحات نافذ کی گئیں جس کے نتیجے میں اس خطے کو سرکاری سطح پر شمالی علاقہ جات کا نام دیا گیا اور بلدیاتی ادارے قائم کیے گیے۔ ضیاء کے ہی دور میں 1981 کو پاکستان کی مجلس شوریٰ میں جی بی سے 3 ممبران کو بھی رکنیت دی گئی جس پر انڈیا نے شدید تحفظات کا اظہار بھی کیا۔

12 جون 1994 کو وفاقی حکومت نے لیگل فریم ورک آرڈر 1975 کو ناردرن ایریاز لیگل فریم ورک آرڈر 1994 کے ساتھ تبدیل کر دیا اور بطور قانون کے شاگرد کے مجھے ایک بات پر تعجب اور حیرت ہوئی کہ میری سرزمین میں اتنے عرصے بعد پہلی بار چیف کورٹ کا قیام عمل میں لایا گیا اور ساتھ ساتھ چیف کمشنر کے عہدے کو چیف سیکرٹری کے عہدے سے تبدیل کر دیا گیا۔ اسی آرڈر کی مہربانی سے کونسل کے چیئرمین اور وائس چئیرمین کے عہدوں کو بھی چیف ایگزیکٹو اور ڈپٹی چیف کا نام دیا گیا۔ اسی آرڈر کی بنیاد پر پہلی مرتبہ سیاسی بنیادوں پر 25 اکتوبر 1994 کو الیکشن منعقد کیے گیے۔ یکم جولائی 2000 کو وفاق نے ایل ایف او 1994 میں مزید ترامیم کیں اور ناردرن ایریاز کونسل کو ناردرن ایریاز قانون ساز کونسل کا درجہ دیا۔

2007 میں صدر پاکستان نے ترمیم کر کے ناردرن ایریاز فریم ورک آرڈر 1994 کو شمالی علاقہ جات گورننس آرڈر کا نام دیا اور قانون ساز کونسل کو قانون ساز اسمبلی کا درجہ دیا۔ 2009 میں صدر پاکستان آصف زرداری نے مزید اصلاحات کا اعلان کیا اور گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر کا نفاذ کیا۔ قانون ساز اسمبلی کی سربراہی قانون ساز اسمبلی کے منتخب شدہ وزیر اعلیٰ کو دی اور خطے کو گلگت بلتستان کا نام اور اس کی پہچان دی گئی۔ قانون ساز اسمبلی کے علاوہ جی بی کونسل کے نام سے سینیٹ طرز کا ایوان بنایا گیا اور وزیر اعظم کو اس کا چیئرمین بنایا گیا۔

اس آرڈر کے مطابق خارجہ امور، دفاع، شہریت اور کرنسی کے معاملات کے علاوہ 61 شعبہ جات پر قانون سازی کا اختیار جی بی کی قانون ساز اسمبلی کو دیا گیا اور اسی آرڈر کی روشنی میں سپریم اپیلٹ کورٹ کا قیام بھی کیا گیا۔

2 مئی 2018 کو صدر پاکستان نے ایک اور تبدیلی کرتے ہوئے گلگت بلتستان سیلف گورننس اینڈ امپاورمنٹ آرڈر 2009 کی جگہ گلگت بلتستان آرڈر 2018 کا اعلان کیا۔ اس آرڈر کے نتیجے میں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کا نام تبدیل کر کے گلگت بلتستان اسمبلی رکھا گیا اور وزیر اعظم کو جی بی کے چیف ایگزیکٹو کا درجہ دینے کے ساتھ ساتھ ان کو جی بی اسمبلی کے بنائے گئے کسی بھی قانون کو ویٹو کرنے کی پاور بھی عطا کر دی گئی۔ صدر پاکستان کو بھی کسی بھی قسم کے آرڈر میں ترمیم کرنے کا اختیار دیا گیا۔

اس آرڈر کے تحت جی بی کونسل کو تحلیل کیا گیا تھا مگر اس آرڈر کو پہلے سپریم اپیلٹ کورٹ میں چیلنج کیا گیا جہاں پر اسے معطل کیا گیا تو اس فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں حکومت جی بی نے چیلنج کیا۔ سپریم کورٹ نے مختلف ترامیم کے ساتھ اسے جی بی ریفارمز آرڈر کی شکل میں دوبارہ بحال کیا اور اس آرڈر میں مزید کسی بھی ترمیم کے لیے وفاقی حکومت کو عدالت سے پیشگی اجازت لینے کا پابند کر دیا۔

یہ ہمارے اپنے گلگت بلتستان کی مختصر سیاسی تاریخ ہے۔

خلیق زیب فارمن کرسچیئن کالج لاہور سے فارغ التحصیل ہیں اور اب قانون کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔