'چین کی ثالثی کارگر، افغانستان اور پاکستان کے بیچ برف پگھلنے لگی'

چین کی جانب سے کوشش کی جا رہی ہے کہ دونوں ہمسایہ ملکوں کے مطالبات کو مدنظر رکھتے ہوئے بیچ کا کوئی راستہ نکالا جا سکے۔ چین نے پہلے بھی کوشش کی تھی تاہم کوئی قابل عمل حل نہیں نکل سکا تھا۔ چونکہ اب پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات انتہائی سنگین نہج پر جا پہنچے ہیں، تو خدشہ ہے کہ یہ کشیدگی کسی تنازعہ کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔

'چین کی ثالثی کارگر، افغانستان اور پاکستان کے بیچ برف پگھلنے لگی'

پاکستان کے ساتھ پرانے سٹریٹجک تعلقات کے پیش نظر چین کو پاکستان اور افغانستان کے مابین بڑھتی کشیدگی پر شدید تشویش ہے۔ چین کی کوشش ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان کے مابین کسی صورت مفاہمت کی راہ نکالے۔ خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان سے متعلق پاکستان کے جو تحفظات ہیں ان کا کوئی مستقل حل نکالا جا سکے۔ یہ دعویٰ کیا ہے سینیئر صحافی کامران یوسف نے۔

یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں کامران یوسف نے بتایا کہ چین کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان نے کابل کا دورہ کیا اور افغان طالبان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی سمیت دیگر قیادت سے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران چین کے خصوصی نمائندے نے اس بات کو دہرایا کہ چین کی ہمیشہ سے پالیسی رہی ہے کہ اصولی طور پر وہ کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا اور افغانستان کے حوالے سے بھی یہی پالیسی ہے۔ چین کی جانب سے یہ بھی واضح کیا گیا کہ کس طرح دونوں ملکوں کے مابین تجارتی تعلقات کے فروغ کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر افغانستان جو بھی اشیا چین سے درآمد کرتا ہے ان پر چین کوئی ٹیکس وصول نہیں کرتا۔ اس کا مقصد دونوں ملکوں کے مابین تجارت کو فروغ دینا ہے۔

گو چین کے اب افغان طالبان کے ساتھ تعلقات قدرے بہتر ہیں لیکن چین اور افغان قیادت کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے پاکستان نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اب چین اور افغان طالبان کے تعلقات تو درست سمت میں جا رہے ہیں لیکن پاکستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہو رہے ہیں۔ چین نے باقاعدہ طور پر تو افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا لیکن چین وہ واحد ملک ہے جس کا کل وقتی سفیر کابل میں موجود ہے۔ چند ہفتے پہلے ہی طالبان حکومت نے بھی اپنا سفیر مقرر کر کے بیجنگ روانہ کیا ہے جسے چین کی حکومت نے تسلیم کیا ہے۔ جیسے پاکستان کو کالعدم تحریک طالبان کے حوالے سے تحفظات ہیں، اسی طرح چین کو افغانستان میں موجود ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ، جسے چین نے دہشت گرد تنظیم ڈکلیئر کیا ہوا ہے، سے تحفظات ہیں تاہم چین خاموش سفارت کاری کے ذریعے اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس حوالے سے چین اپنی خاص حکمت عملی کو لے کر آگے بڑھ رہا ہے۔

کامران یوسف کے مطابق سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ چین کو پاکستان اور افغانستان کے مابین بڑھتی کشیدگی پر شدید تشویش ہے۔ چین چاہتا ہے کہ افغانستان میں طویل مدتی سیاسی استحکام آئے تاکہ چین اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کو افغانستان تک پھیلا سکے اور افغانستان کے ذریعے دیگر وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی حاصل کر سکے۔ چین افغانستان کے معدنی وسائل خصوصی طور پر لیتھیم کو بھی استعمال میں لانا چاہتا ہے لیکن چین کو افغانستان اور پاکستان کے مابین بڑھتی کشیدگی سے تمام معاملات کے بگڑنے کا خدشہ لاحق ہے۔ اس لیے چین کی کوشش ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کسی صورت مفاہمت کروائی جا سکے۔

ماضی میں بھی جب پاکستان افغانستان کے مابین تعلقات میں کشیدگی آئی تھی تب بھی چین نے ثالثی کی پیش کش کی تھی اور اب بھی چین ایک ایسا حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس میں کسی بھی ملک کا نقصان نہ ہو۔ حال ہی میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں کشیدگی تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کارروائی کے مطالبے پر شروع ہوئی۔ افغانستان کی طالبان حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے سے اس لیے گریز کر رہی ہے کیونکہ جب افغانستان میں امریکی فوج موجود تھی تو طالبان ٹی ٹی پی کے ساتھ مل کر امریکہ کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔ دوسرا، طالبان کا سب سے بڑا دشمن داعش ہے اور اگر وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی کارروائی کریں تو امکان ہے کہ ٹی ٹی پی کے لوگ داعش کے ساتھ مل جائیں افغان طالبان حکومت کے لیے مصیبت بن سکتے ہیں۔ اس لیے طالبان حکومت کی جانب سے پاکستان پر زور دیا جا رہا ہے کہ ٹی ٹی پی والے مسئلے کا حل صرف مذاکرات ہیں۔

پاکستان کا مطالبہ ہے کہ ہم طالبان کے ساتھ مذاکرات کر کے دیکھ چکے ہیں۔ اگست 2021 میں جب افغان طالبان اقتدار میں آئے تب ہم نے ان کے ساتھ مذاکرات کیے تھے لیکن ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ ٹی ٹی پی پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئی۔ پاکستان نے واضح کیا کہ ان کے ساتھ اب کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ یہ پاکستان پر مسلسل حملے کر رہے ہیں۔ صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے تاکہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں کمی واقع ہو اور بتدریج ان کارروائیوں کا خاتمہ ہو جائے۔ چین کی جانب سے کوشش کی جا رہی ہے کہ دونوں ہمسایہ ملکوں کے مطالبات کو مدنظر رکھتے ہوئے بیچ کا کوئی راستہ نکالا جا سکے۔ چین نے پہلے بھی کوشش کی تھی تاہم کوئی قابل عمل حل نہیں نکل سکا تھا۔ چونکہ اب پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات انتہائی سنگین نہج پر جا پہنچے ہیں، تو خدشہ ہے کہ یہ کشیدگی کسی تنازعہ کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔

کامران یوسف کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے جیسے اب افغان طالبان پر بھی دباؤ آ رہا ہے کیونکہ یقینی طور پر چین نے بھی دونوں ممالک کے مابین بڑھتی کشیدگی پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہو گا کہ اگر پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہے اور اس کا تعلق افغانستان سے جڑتا رہا تو پھر یقینی طور پر دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری نہیں آ سکے گی۔ حال ہی میں ڈیرہ اسماعیل خان میں ہوئے دہشت گرد حملے میں 23 پاکستانی فوجی اہلکار شہید ہوئے۔ افغان طالبان کو خدشہ ہے کہ پاکستان اس کا بدلہ ضرور لے گا اور کوئی بڑی کارروائی کر سکتا ہے۔ اس خوف کے تحت افغان طالبان یہ باور کروانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ سنجیدہ ہیں اور وعدے پر قائم ہیں کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔

صحافی نے بتایا کہ اس سلسلے میں دو پیشرفت بھی سامنے آئی ہیں۔ ایک یہ کہ افغان طالبان نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے گذشتہ ایک سال کے دوران تحریک طالبان پاکستان سے تعلق رکھنے والے 40 کے قریب لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ اس اعلان پر پاکستان کا تاحال کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا۔ دوسرا یہ کہ طالبان حکومت نے پاکستان کی سیاسی جماعت جمیعت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو کابل کے دورے کی دعوت دی ہے۔ افغان طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے بیان بھی سامنے آیا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کو دعوت دینے کا مقصد ہے کہ اس تاثر کو ختم کیا جا سکے کہ افغان حکومت ٹی ٹی پی کی پشت پناہی کرتی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کو طالبان حکومت کی جانب سے ٹی ٹی پی کے خلاف لیے گئے تمام اقدامات کے حوالے سے آگاہ کیا جائے گا۔ افغان طالبان حکومت مولانا فضل الرحمان کے ذریعے پاکستان اور عوام کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان میں بڑھتی دہشت گردی کے حق میں نہیں اور سنجیدگی سے پاکستان کے تحفظات کو دور کرنے کے خواہاں ہیں۔