انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواست واپس لینے پر سپریم کورٹ کا درخواستگزار کو پیش کرنے کا حکم

عدالتی حکم نامے کے مطابق درخواست گزار نے درخواست دائر کرکے زیادہ سے زیادہ شہرت حاصل کرنے کے بعد درخواست واپس لینے کے لیے ایک اور درخواست دائر کی.درخواست گزار نے عدالت کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ عدالت ایسی ساز باز کی اجازت نہیں دے سکتی۔

انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواست واپس لینے پر سپریم کورٹ کا درخواستگزار کو پیش کرنے کا حکم

8 فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات کالعدم قرار دینے کے کیس میں متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو درخواست گزار بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمد علی کو پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ ایسے سپریم کورٹ کے ساتھ مذاق نہیں ہو سکتا کہ پہلے درخواست دائر کرتے ہیں اور پھر غائب ہوجاتے ہیں، یہ کیس ہم سنیں گے۔

پیر کے روز سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے 8 فروری کے انتخابات کالعدم قرار دینے کے حوالے سے دائر درخواست پر سماعت کی۔

درخواست گزار علی خان خود عدالت پیش نہ ہوئے اور ان کی جانب سے ایک نئی درخواست عدالت عظمیٰ کے سامنے رکھی گئی جس میں انہوں نے انتخابات سے متعلق اپنی درخواست واپس لینے کی استدعا کی تاہم، چیف جسٹس نے درخواست گزار کو ڈھونڈ کر پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

درخواست گزار کے پیش نہ ہونے  چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا یہ کوئی مذاق ہے۔درخواست دائر کی خبریں لگوائیں اور پھر پیش نہیں ہو رہے۔ کیا یہ صرف مشہور ہونے کیلئے درخواستیں دائر کرتے ہیں؟ ایسا تو نہیں ہو گا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درخواست گزار کون ہیں اور کہاں ہیں؟ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ ان صاحب نے تو درخواست واپس لینے کی استدعا کر دی تھی۔

عدالت نے سپریم کورٹ آفس کو درخواست گزار علی خان سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے کیس سے متعلق اطلاع کرنے کی ہدایت کر دی۔ عدالت نے ہدایت کی کہ سپریم کورٹ کا رجسڑار آفس بھی درخواست گزار سے رابطہ کرے۔

دوران سماعت عدالتی سٹاف کی جانب سے بتایا گیا کہ نوٹس کی تعمیل نہ ہوسکی، درخواست گزار کا نمبر بھی بند ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ درخواستیں شہرت کے لیے دائر کی جاتی ہیں۔ میڈیا پر درخواست ریلیز کر دو پھر غائب لیکن ہم اس کیس کو سنیں گے اور ان علی صاحب کو جس طریقے سے بھی ہو پیش کیجیے۔ کل یہ کہیں گے میں نے واپس نہیں لی۔ ایسے نہیں چلے گا کیس سنیں گے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ درخواست تو ابھی آفس اعتراضات پر ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ساری دنیا میں درخواستیں دائر ہوتیں ہیں۔ ان کو کال کرکے طلب کریں اور متعلقہ ایس ایچ او سے بات کریں۔کیس کیا ہے تو پھر چلائیں یہ کوئی مذاق نہیں۔

عدالتی عملے نے بتایا کہ گھر پر نوٹس کی تعمیل کے لیے عملہ درخواست گزار کے گھر بھی گیا لیکن جواب نہیں ملا۔ موبائل پر فون کیا جو بند تھا۔ وٹس ایپ پر میسج بھی سپریم کورٹ کی جانب سے کیا گیا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کیا۔ وقفے کے بعد دوبارہ سماعت ہوئی تو عدالتی کارروائی کا تحریری حکمنامہ لکھوا دیا گیا جس میں بتایا گیا کہ 12 فروری کو درخواست دائر ہوئی جبکہ درخواست دائر ہونے سے قبل الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں تشہیر کی گئی۔ درخواست پر رجسٹرار آفس نے اعتراضات بھی عائد کیے لیکن کیس کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے درخواست اعتراضات کے ساتھ سماعت کے لیے مقرر کی گئی۔

عدالتی حکم نامے کے مطابق درخواست گزار نے درخواست دائر کرکے زیادہ سے زیادہ شہرت حاصل کرنے کے بعد درخواست واپس لینے کے لیے ایک اور درخواست دائر کی. درخواست پر درج رہائش کے پتے پر نوٹس بھیجا گیا لیکن موصول نہیں ہوا۔ دیے گئے موبائل نمبر پر کال کی گئی لیکن رابطہ نہیں ہوا اور آج عدالتی کارروائی کے دوران بھی کوئی پیش نہیں ہوا۔

حکمنامے میں بتایا کہ عام طور پر درخواست گزار درخواست واپس لینے کا مجاز ہوتا ہے لیکن زیر غور کیس میں صورتحال کا استحصال کرنے اور مقصد حاصل کرنے کے بعد کیس واپس لینے کی درخواست واپس دائر کی گئی۔ درخواست گزار نے عدالت کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ عدالت ایسی ساز باز کی اجازت نہیں دے سکتی اس لیے درخواست گزار کو ایک اور موقع فراہم کرتے ہیں۔

عدالتی حکم میں کہا گیا کہ معمول کے علاوہ متعلقہ ایس ایچ او کے ذریعے عدالتی نوٹس کی تعمیل کرائی جائے۔  چونکہ درخواست گزار ایک سابق بریگیڈیئر ہے تو وزارت دفاع کے ذریعے بھی نوٹس کی تعمیل کرائی جائے۔

عدالت نے کیس کی سماعت بدھ 21 فروری تک ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ درخواستگزار بریگیڈیئر ریٹائرڈ علی خان نے ملک بھر میں ہونے والے عام انتخابات کو کالعدم قرار دینے کے لیے 12 فروری کو سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں انہوں نے مؤقف اپنایا تھا کہ عام انتخابات میں جمہوری اصولوں کی نفی کی گئی اور پاکستان تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم نہیں کی گئی۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ بانی پی ٹی آئی پر جھوٹے الزامات لگا کر انہیں پابند سلاسل کیا گیا اور پی ٹی آئی سے انتخابی نشان چھین کر جمہوری عمل کو نقصان پہنچایا گیا۔ عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر مبینہ دھاندلی کی گئی اور اچھے ٹرن آؤٹ کے باوجود ریٹرننگ افسروں نے پولنگ نتائج جاری کرنے میں تاخیر کی جس سے انتخابات کی شفافیت پر سوال کھڑے ہوئے۔

درخواست گزار نے سپریم کورٹ سے انتخابات کو کالعدم قرار دے کر اپنی نگرانی میں 30 دن کے اندر نئے انتخابات کا حکم دینے کی استدعا کی ہے۔ درخواست میں عدالت سے یہ استدعا بھی کی گئی ہے کہ 8 فروری کے انتخابات کے تحت حکومت سازی کا عمل بھی روکا جائے۔