جنازہ جمہوریت کا یا صحافت کا؟

نصر اللہ ملک نے کہا ہے کہ ہم نے میاں عمران ارشد سے جعلی بیلٹ پیپرز کی چھپائی کی بابت ثبوت مانگے تھے اور کہا تھا کہ اگر ثبوت موجود نہیں تو ہم اس ویڈیو کو نشر نہیں کریں گے جس پر عمران نے کوئی دبائو نہیں ڈالا لیکن رائے ثاقب بضد رہے کہ اسے چلانا چاہیے۔

Rai Saqib Kharal Mian Imran Arshad

8 فروری 2024 کو ہونے والے انتخابات تاحال تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں اور اس حوالے سے آئے روز ایک نئی کہانی سامنے آ رہی ہے۔ سابق کمشنر راولپنڈی لیاقت چٹھہ نے تین روز قبل دعویٰ کیا تھا کہ ان کی دویژن میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کو دھاندلی کے ذریعے ہروایا گیا کے بعد اس ڈویژن کے آر او اور ڈی آر اوز نے پریس کانفرنس کر کے ان الزامات کو غلط قرار دیا تھا۔

اتوار کی شام دو نئی ویڈیوز یکایک سوشل میڈیا پر تحریکِ انصاف کے سوشل میڈیا ٹیم کے رکن اظہر مشوانی کی جانب سے ٹوئیٹ کی گئیں جن میں دو اینکرز، ہم نیوز کے رائے ثاقب کھرل اور لاہور رنگ کے میاں عمران ارشد کو دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ لاہور کے ایک پرنٹنگ پریس پر چھاپہ مار رہے ہیں جہاں مبینہ طور پر مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف کے مانسہرہ میں NA15 کے بیلٹ پیپر چھاپے جا رہے ہیں۔

ان کی ٹوئیٹ کے بعد یہ ویڈیوز پارٹی کے دیگر اکاؤنٹس سے بھی ٹوئیٹ کی گئیں جن میں خود عمران خان، پاکستان تحریکِ انصاف اور پارٹی کے سوشل میڈیا ٹیم کے سربراہ جبران الیاس کے اکاؤنٹس سرِ فہرست ہیں۔ اس کے علاوہ ابوزر سلمان نیازی جو کہ عمران خان کے وکیل ہیں نے بھی اس ویڈیو کو ٹوئیٹ کیا۔

جہاں ایک طرف لاکھوں لوگوں نے ان ویڈیوز کو ٹوئٹر پر دیکھا اور یوٹیوبرز نے اس پر وی لاگ بھی کیے، وہیں بہت سے لوگوں نے اس ویڈیو پر سوالات بھی اٹھائے۔ جن میں اولین سوال یہ تھا کہ بیلٹ پیپر کوئی عام کاغذ نہیں ہوتا۔ یہ وہی کاغذ ہوتا ہے جس پر پاکستانی روپیہ چھپتا ہے اور اس کے لئے خصوصی طور پر حکومتِ پاکستان اجازت دیتی ہے۔ اس کے vendor بھی وہی ہوتے ہیں جو پاکستانی روپیہ کے لئے کاغذ فراہم کرتے ہیں اور یہ کاغذ عوامی استعمال کے لئے میسر ہی نہیں ہوتا۔

دوسری بات یہ کہ کاغذ کے ساتھ کاؤنٹر فائل بھی ہوتا ہے، جو یہاں موجود نہیں۔

اور کچھ لوگوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ دھاندلی کے لئے نئے بیلٹ چھاپنے کی ضرورت کیا ہے، 38 فیصد تو اس حلقے میں کل پولنگ ہوئی ہے تو باقی 62 فیصد بیلٹ پیپر اب بھی موجود ہیں، انہی پر ٹھپے لگانے کا کام کیا جا سکتا تھا۔

ن لیگ کا رائے ثاقب کے خلاف ٹرینڈ

مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا کارکنان نے البتہ اس پر # ArrestRaiSaqibKharal کا ٹرینڈ سوشل میڈیا پر چلانا شروع کر دیا جو کہ صبح سے پاکستان میں نمبر 1 ٹرینڈ ہے اور اس پر اب تک 1 لاکھ 74 ہزار ریٹوئیٹ ہو چکی ہیں۔

رائے ثاقب کھرل پر الزام تھا کہ انہوں نے دھاندلی کی جھوٹی ویڈیو بنا کر فیک نیوز چلائی ہے۔ اس پر رائے ثاقب نے ہم نیوز کے اپنے کولیگ منصور علی خان کو فون پر بتایا کہ ان کا نام غلط طریقے سے استعمال ہو گیا ہے اور انہیں ڈر ہے کہ کہیں ان کو لاپتہ نہ کر دیا جائے۔ منصور علی خان نے یوٹیوب پر اپنے وی لاگ میں رائے ثاقب کھرل کا نقطہ نظر بھی رکھا جس کے مطابق ان پر یہ غلط الزام لگایا جا رہا تھا کہ انہوں نے اس ویڈیو کو ٹوئیٹ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی جانب سے یہ ویڈیو کبھی ٹوئیٹ نہیں کی گئی کیونکہ یہ ویڈیو چینل کی ملکیت تھی۔

منصور علی خان کے مطابق رائے ثاقب کھرل کو غالباً پھنسایا گیا تھا۔ تاہم، ہم نیوز ہی سے وابستہ مزمل سہروردی جو رائے ثاقب کھرل کے ساتھ پروگرام "خبر اور تجزیہ" کرتے ہیں، نے نیا دور پر اپنے پروگرام "خبر سے آگے" میں بتایا کہ رائے ثاقب کھرل کو اندازہ ہے کہ انہیں استعمال کیا گیا ہے لیکن وہ تاحال اس شخص کا نام بتانے سے گریزاں ہیں جنہوں نے انہیں استعمال کیا۔ مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ اگر رائے ثاقب خود کو دھوکہ دیے جانے کے باوجود اپنے ذرائع یعنی "سورس" کو سامنے لانے سے انکار کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہی لیا جائے گا کہ وہ اس سارے کھیل میں شامل تھے۔

رائے ثاقب کھرل "لاپتہ"؟

تحریکِ انصاف کے کچھ ورکرز کی جانب سے یہ پراپیگنڈا بھی کیا گیا کہ رائے ثاقب کو شاید لاپتہ کر دیا گیا ہے۔ @KaliwalYam نامی ٹوئٹر ہینڈل نے لکھا کہ "نواز شریف اور مریم نواز کی دھاندلی کو ایکسپوز کرنے کے بعد رائے ثاقب کھرل کل سے لاپتہ ہے، آگر ثاقب کھرل کو کچھ ہوا تو زمہ دار مسلم لیگ ن ہوگی"۔

اس ٹوئیٹ کو بھی اب تک 1 لاکھ 80 ہزار لوگ دیکھ چکے ہیں۔ رائے ثاقب ہم نیوز پر اپنا پروگرام بھی کر چکے ہیں لیکن یہ ٹوئیٹ اس خبر کے شائع ہونے تک اپنی جگہ موجود ہے۔

نصراللہ ملک نے سٹوری میں سے ہوا نکال دی

دوسری جانب میاں عمران ارشد کا تعلق لاہور رنگ سے ہے اور ان کے چینل کے سربراہ نصراللہ ملک نے ایک تفصیلی وی لاگ کر کے 15 فروری کو جب یہ ویڈیو بنائی گئی سے لے کر 18 فروری کی رات اس کے سوشل میڈیا پر سامنے لائے جانے تک کے اپنے ایڈیٹوریل پروسس پر روشنی ڈالی ہے۔

نصر اللہ ملک نے کہا ہے کہ ہم نے میاں عمران ارشد سے جعلی بیلٹ پیپرز کی چھپائی کی بابت ثبوت مانگے تھے اور کہا تھا کہ اگر ثبوت موجود نہیں تو ہم اس ویڈیو کو نشر نہیں کریں گے جس پر عمران نے کوئی دبائو نہیں ڈالا لیکن رائے ثاقب بضد رہے کہ اسے چلانا چاہیے۔ جس پر "ہم نیوز" کے اینکر رائے ثاقب کھرل کو کہا تھا کہ آپ اپنے چینل میں جا کر اسے ایسے ہی نشر کروا لیں کیونکہ رائے ثاقب کھرل کا "نیو نیوز" پر جعلی بیلٹ پیپرز کی ویڈیو نشر کروانے کی بات پر مزید شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔ سینیئر صحافی نصر اللہ ملک کا کہنا ہے کہ جو خبر میرے پاس آئی ہے اس کو ایڈیٹوریل چیک سے گزارنا لازم ہے تاکہ جانا جا سکے کہ اس کے حقائق کیا ہیں؟ کہیں کسی کے سیاسی مقاصد یا کوئی پلانٹڈ سٹوری تو نہیں؟ ویڈیو میں جس طرح کہا جا رہا ہے کہ جمہوریت کا جنازہ ہے، یہ الفاظ خبر میں کیسے کہے جا سکتے ہیں۔

نصراللہ ملک نے مزید بتایا کہ یہ سٹوری جب انہوں نے روک لی تو حیرت انگیز طور پر یہ PTI سوشل میڈیا کارکن اظہر مشوانی کے اکاؤنٹ سے ٹوئیٹ ہو گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ویڈیو دو اینکرز نے بنائی ہے تو اظہر مشوانی کے پاس یہ ویڈیو کیسے پہنچ سکتی ہے؟ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اگر صحافی یہاں موجود تھے تو کسی تیسرے کیمرے سے یہ ویڈیو کیسے بنائی جا سکتی تھی؟ ان کا کہنا تھا کہ اظہر مشوانی کے اکاؤنٹ سے ٹوئیٹ ہونے کے بعد اس سٹوری پر مزید شکوک و شبہات نے جنم لیا ہے۔

اظہر مشوانی کے مطابق یہ سٹوری بالکل ٹھیک ہے

اس سلسلے میں نیا دور کے رپورٹر منیر احمد باجوہ نے اظہر مشوانی سے رابطہ کیا تو انہوں نے نصراللہ ملک پر ہی الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ وہ یہ تسلیم نہیں کرتے کہ یہ سٹوری جعلی ہے۔ یہ ویڈیوز ابھی بھی ان کے اکاؤنٹ پر موجود ہیں۔

نیا دور نے جعلی بیلٹ پیپرز کی چھپائی کی ویڈیو ریکارڈ کرنے والے صحافی میاں عمران ارشد اور رائے ثاقب کھرل سے کئی بار رابطہ کیا گیا مگر رائے ثاقب کھرل کا نمبر بند رہا جبکہ میاں عمران ارشد نے رابطہ کرنے کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا۔

پرنٹنگ پریس لکشمی چوک میں واقع ہے

اردو نیوز پر رائے شاہنواز کی خبر کے مطابق دونوں صحافی جس پرنٹنگ پریس کا ذکر کر رہے ہیں وہ لاہور کے علاقے لکشمی چوک میں رائل پارک میں کوزی حلیم والی گلی میں بائیں طرف ایک پلازے کی پہلی منزل پر واقع ہے۔

پریس کے باہر کسی کا نام درج نہیں البتہ اندر صرف ایک پرنٹنگ مشین پڑی ہوئی ہے جو کہ ہائیڈل برگ جی ٹی او کے نام سے جانی جاتی ہے اور پرنٹنگ لائن میں سستی ترین مشین سمجھی جاتی ہے۔ جبکہ ایک کٹر مشین ہے جس سے پیپر کاٹا جاتا ہے۔

اس پلازے میں اور بھی درجنوں پرنٹنگ کی دکانیں ہیں۔ وہاں موجود محمد خان نامی شخص نے بتایا کہ ’یہ دکان اعجاز نامی شخص کی ہے اور وہ لاہور کے علاقے ساندہ کے رہائشی ہیں۔ ان کے پاس تین سے چار لوگوں کا سٹاف ہے اور یہ کوئی بہت مشہور یا بڑا کام کرنے والا پریس نہیں ہے۔ ان کو اس دکان میں شفٹ ہوئے ایک سال ہوا ہے۔ 15 فروری کو جب یہاں دو صحافی آئے اور اردگرد کسی کو کچھ علم نہیں تھا جب وہ اونچی اونچی کیمرے پر بول رہے تھے تو اردگرد لوگ اکھٹے ہو گئے۔‘

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’جب وہ یہ ویڈیو بنا رہے تھے تو ایک دو ملازم اس دکان کے اندر موجود تھے، مالک خود نہیں تھا، ملازم بھی وہاں سے چلے گئے۔ جب یہ صحافی اپنا کام کر چکے تو ایک شخص نے بیلٹ پیپرز کو دو بڑے تھیلوں میں ڈالا اور وہ بھی صحافیوں کے بعد غائب ہو گیا۔‘

’لیکن لوگ بتاتے ہیں کہ اس نے قریبی ڈمپنگ سٹیشن پر وہ تھیلے پھینک دیے تھے۔ آج صبح سے پولیس بھی دو مرتبہ یہاں چکر لگا چکی ہے لیکن انہیں بیلٹ پیپر یہاں سے نہیں ملے۔‘