جلد کو جلاتی تپتی ہوئی دھوپ کی تپش تو بلوچستان وومین کرکٹ ٹیم کے حوصلے پست نہ کر سکی لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے ڈسڑکٹ اور ریجن میچز بند ہونے کے بعد بلوچستان کی کرکٹرز مایوس ہوگئیں ہیں۔ امن بلوچ تاریک مستقبل کو بھانپتے ہوئے پانچ سال بعد فٹ بال کے کھیل کو خیر آباد کہہ کر 2011 میں کرکٹ کے میدان میں آگئیں تھیں۔ سپورٹس کو اپنی زندگی کے 14 سال دینے والی بلوچستان وومین کرکٹ ٹیم کی کھیلاڑی آج پھر اپنے مستقبل سے شدید مایوس نظر آ رہی ہیں۔
فزیکل ایجوکیشن میں ایم ایس سی پارٹ 2 اسلام آباد سے کرنے کا ارادہ رکھنے والی امن بلوچ سمجھتی ہیں کہ شاید بلوچستان کی پہلی وومین کرکٹ کوچ بننے کا ان کا خواب اب کبھی پورا نہیں ہو گا۔ کیونکہ، پاکستان کرکٹ بورڈ نے صوبے میں 2015 سے ڈسٹرکٹ اور ریجن میچز بند کر دیے ہیں۔ ماضی میں 23 مارچ، 14 اگست جیسے ایام میں بلوچستان حکومت کی طرف سے سپورٹس گلہ منعقد ہوتے تھے، جہاں بلوچستان کی کھلاڑیوں کو میچ کھیلنے کا موقع ملتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے کئی کھلاڑی کرکٹ چھوڑ کر دوسرے کھیلوں کی طرف چلی گئی ہیں۔
امن بلوچ نے 2019 میں ہی کوچنگ کورس لیول 1 بھی مکمل کیا ہے کہ شاید انہیں پی سی بی میں کوچ کی نوکری مل جائے لیکن اب انہیں معلوم نہیں کہ کیا ہو گا۔ امن نے بتایا کہ پی سی بی کے میچز کی طرف سے انہیں ایک ٹور پر 5 سے 10 ہزار تک ملتے تھے اور کھلاڑیوں کی رہائش کا بندوبست 4 یا 5 اسٹار ہوٹل میں ہوتا تھا۔ ڈسٹرکٹ میچز میں بھی روز کے پیسے ملا کرتے تھے اور اچھا کھیلنے والی کھلاڑی کو کیش انعام بھی ملتا تھا لیکن اب یہ سلسلہ بند ہو چکا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے تو وومین کرکٹرز کو کبھی سراہا بھی نہیں ہے۔ گذشتہ سال 2018 میں ایک سپر لیگ پشاور میں ہوئی جہاں ہم فائنل تک پہنچے۔ ہماری پرفارمنس بہت اچھی تھی لیکن بلوچستان حکومت نے ہماری کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ بلوچستان کے محکمہ کھیل کو دیگر کھیلوں کی طرح کرکٹ کے مقابلے بھی کرانے چاہیے ہیں۔
صوبہ بلوچستان میں صرف کوئٹہ میں ہی وومین کرکٹرز کو ٹریننگ دی جاتی ہے، جہاں وومین کرکٹرز کیلئے کوئی خاتون کوچ نہیں ہے۔ چار کوچ لڑکوں کو کرکٹ سیکھانے کیلئے مختص ہیں اور ایک مرد کوچ لڑکیوں کو ٹریننگ کراتے ہیں۔ لڑکیوں کیلئے کوئی الگ سے گراؤنڈ بھی موجود نہیں ہے، کوئٹہ کے بگٹی سٹیڈیم میں لڑکے، لڑکیاں ایک ساتھ پریکٹس کرتے ہیں۔
وومین کرکٹرز کے کوچ عاقل بلوچ کہتے ہیں کہ جب 2008 میں انہوں نے وومین کرکٹرز کی کوچنگ شروع کی، تب صرف دو لڑکیاں ہوا کرتی تھیں۔ جن میں سے ایک ناہیدہ خان ہیں جو آج کل پاکستان وومین کرکٹ میں کھیل رہی ہیں۔ تب انہیں گیسٹ کرکٹرز لاہور کراچی سے لینا پڑتی تھیں لیکن 2012 میں لڑکیوں کی تعداد بڑھ گئی، پھر بلوچستان کی اپنی ٹیم بن گئی تھی۔ کوچ عاقل نے بتایا کہ پورے بلوچستان میں صرف کوئٹہ میں وومین کرکٹرز کو ٹریننگ دی جاتی ہے اور کوئٹہ میں بھی لڑکیاں بہت مشکل سے پریکٹس کیلئے آتی ہیں، کیونکہ اُن کے پاس ٹرانسپورٹ کے پیسے بھی نہیں ہوتے کہ وہ گھر سے اسٹیڈیم تک آسکیں۔ ریجن اور ڈسٹرکٹ میچز بند ہونے سے لڑکیاں مایوسی کا شکار ہوئی ہیں، اُن کے مطابق بلوچستان وومین کرکٹرز کیلئے سپانسر نہیں ملتے۔ کوئٹہ کی کرکٹر ناہیدہ خان پاکستان کی ٹیم میں کھیل رہی ہے جس کی پرفارمنس بہت اچھی ہے۔ ناہیدہ جیسی دو اور کھلاڑی بھی بلوچستان کے پاس موجود ہیں، جن پر اگر تھوڑی توجہ دی جائے تو وہ بہت اچھا پرفام کریں گی۔
ماہر ثقافت جامعہ بلوچستان کے پروفیسر برکت شاہ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں لڑکیاں لڑکوں کے مقابلے میں ہر طرح پیچھے ہیں۔ ہمارے ہاں لڑکیوں کے اسکولوں میں کھیل کے میدان نہیں ہیں۔ اگر ہم پاکستان بھر کی لڑکیوں کا موازنہ معاشرے کی دیگر لڑکیوں سے کریں تو ہمارے ہاں خواتین کے قد چھوٹے ہیں کیونکہ وہ کھیل کود میں متحرک نہیں رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماؤں میں خون کی کمی جوڑوں کا درد عام بیماری ہے۔ تعلیم صرف کتابی ہی نہیں بلکہ فزیکل بھی ہوتی ہے، جہاں لڑکیوں کے چہرے پر تیزاب پھینکے جاتے ہوں وہاں کوئی لڑکی کھیل کی طرف آنے کا سوچ بھی کیسے سکتی ہے۔
ان کے مطابق کوئٹہ کے علاوہ بلوچستان کے بیشتر اضلاع ایسے ہیں جہاں خواتین کا کھیل کی طرف راغب ہونا ناممکنات میں سے ہے۔ اگر بلوچستان کی کوئی لڑکی اپنی سماجی بندشیں توڑ کر کھیل کے میدان میں آتی ہے اور محنت کرنے کے بعد اسے ریاست کی طرف سے کوئی مدد فراہم نہیں ہوتی تو اس کا مستقبل کیا ہو گا؟ جبکہ ریاست کی عدم توجہی سے دیگر خواتین کھلاڑیوں کے بھی حوصلے پست ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ایسا ملک ہے جہاں نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد ہے، جس میں خواتین کا بڑا حصہ شامل ہے لیکن افسوس نوجوانوں کے مستقبل کیلئے کوئی جامع پالیسی نظر نہیں آتی۔
ذرائع کے مطابق پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے وومین کرکٹرز کیلئے بلوچستان کو سال میں درجن گیندیں بھیجی جاتی ہیں جس کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔ ریجن میچز میں پھر بھی کھلاڑیوں کو کٹ وغیرہ مل جایا کرتی تھی۔ پی سی بی نے بلوچستان کو کراچی زون میں رکھا ہے جہاں بلوچستان کی کھلاڑیوں کو خاص توجہ نہیں ملتی۔ جس کا شکوہ وومین کرکٹرز نے ایم ڈی پی سی بی وسیم احمد سے ان کے کوئٹہ دورے کے موقع پر کیا تھا۔
جس پر انہوں نے یقین دہانی کرائی تھی کے وہ بلوچستان کو الگ زون کا درجہ دینے کی کوشش کریں گے لیکن اب تک کوئی پیش رفت نظر نہیں آئی۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے کہا کہ کوشش ہے کہ تمام سرکاری اسکولوں میں کھیلوں کی سرگرمیاں کروائیں جبکہ حکومت صوبے کے تمام اضلاع میں اسپورٹس کمپلیکس تعمیر کروا رہی ہے تاکہ ہر کھیل میں بلوچستان کے نوجوانوں کو ملکی سطح پر مین اسٹریم میں لایا جائے۔
وزیر اعلیٰ جام کمال نے حال ہی میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نامور باکسر وسیم احمد کے اعزاز میں تقریب رکھی تھی جب وہ دبئی سے فائٹ جیت کر آئے تھے۔ اسی طرح مختلف کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سامنے صوبے کی وومین کرکٹرز کے مسائل ضرور اُٹھائیں گے اور وومین کرکٹرز کی آواز بنیں گے۔
ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری نے بتایا کہ بلوچستان کے کرکٹرز کے مسائل پر اُنہوں نے گزشتہ ماہ پی سی بی کے چیئرمین احسان مانی سے ملاقات کی تھی اور اُنہیں بلوچستان کے مسائل سے آگاہ کیا تھا تاہم اب اگلی ملاقات میں پی سی بی کے چیئرمین سے بلوچستان کی وومین کرکٹرز کے مسائل پر بات کروں گا۔ اُنہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان خود کرکٹر اور قومی ٹیم کے کپتان رہے ہیں۔ پی سی بی کو بہتر کرنے میں عمران خان کی ذاتی دلچسپی ہے جہاں ضرورت محسوس ہوئی وہاں وزیر اعظم عمران خان سے بھی بلوچستان کی کرکٹ کے بارے میں بات ہوگی۔
دوسری جانب بلوچستان کی کھلاڑیوں کو کراچی میں نظر انداز کرنے اور پی سی بی کی طرف سے سال میں صرف درجن بھر گیندیں بھیجنے کے حوالے سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے میڈیا مینجرز سے بذریعہ ای میل رابطہ کیا گیا، جس کے جواب میں پی سی بی کے ایک میڈیا مینجر ڈومیسٹک کرکٹ اینڈ ہائی پرفارمنس عماد احمد حمید نے جواب میں کہا کہ اُنہوں نے متعلقہ آفیشلز کو ای میل بھیج دی ہے، جسے ہی ان کا جواب آئے گا وہ آگاہ کر دیں گے۔ لیکن تاحال پی سی بی کا جواب موصول نہیں ہوا۔