انتخابات سے قبل سبھی سیاسی جماعتیں پارٹی منشور کا اعلان کرتی ہیں تا کہ ووٹر کا اعتماد اور عوامی توجہ حاصل کی جاسکے۔ بہرحال یہی پارٹیاں برسرِ اقتدار آ کر ملکی تعمیر و ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے کون سے منصوبے متعارف کرواتی یا کن منصوبوں پر عمل درآمد کرتی ہیں یہ بعد از انتخابات ہی سامنے آتا ہے۔ عموماً پارٹی منشور محض اعلانات اور کاغذی کارروائی تک ہی محدود رہتے ہیں۔
اداراہ برائے سماجی انصاف نے حال ہی میں ' وفاؤں کا تقاضا ہے' کے عنوان سے ایک جائزہ رپورٹ جاری کی ہے جس میں ملک کی 7 سیاسی جماعتوں کے گزشتہ تین انتخابات میں مذہبی اقلیتوں سے کئے گئے وعدوں ( انتخابی منشور) اور اُن پر عمل درآمد کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
اس جائزہ رپورٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریکِ انصاف، پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان مسلم لیگ (ق)، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ مجلسِ عمل یعنی جماعتِ اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 2008، 2013 اور 2018 کے انتخابی وعدوں اور بعدازاں اُن پر عمل درآمد کا جائزہ لیا گیا ہے۔
محقق پیٹر جیکب، محمد رفیق اور معاونین سنیل ملک، فارعہ خان اور سمعیہ یوسف کی مرتب کردہ جائزہ رپورٹ 'Promises to Keep & Miles to Go' کے نام سے انگریزی میں دستیاب ہے۔ اس کے اُردو ترجمے کی ذمہ داری یوسف بنجمن اور کلثوم صادق نے نبھائی ہے۔
76 صفحات کی یہ رپورٹ تین حصوں پر مشتمل ہے جن میں حصہ اول وعدے، حصہ دوئم اقدامات اور حصہ سوئم پارٹیوں کی کارکردگی پر مبنی ہے۔ ادارہ برائے سماجی انصاف نے درج بالا سیاسی جماعتوں کے انتخابی وعدوں اور ان پر عمل درآمد کی تحقیقات کو رپورٹ میں چارٹس اور جدولوں میں پیش کیا ہے جن سے جماعتوں کی کارکردگی کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق مذکورہ سالوں میں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں واضح طور پر ناکام رہی ہیں۔ مجموعی طور پر سات میں سے پانچ اقدامات پر خاطرخواہ پیشرفت نہ ہو سکی اور محض دو اقدامات جن میں اقلیتی طلبا کے لئے اسلامیات کے متبادل مضمون متعارف کروانا اور اقلیتی نمائندگان کو قومی مسائل میں شریکِ گفتگو کرنا شامل تھا، ان پر جزوی کامیابی حاصل ہوئی۔ بیشتر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اقلیتوں کے مسائل سے متعلق بات چیت سے کنارہ کشی اختیار کی۔ خصوصاً اقلیتی بچیوں کے اغوا اور جبری تبدیلی مذہب کے قانون پر بحث میں حصہ لینے سے معذرت کر لی۔
سیاسی جماعتوں کی کارکردگی دینے کے بعد ادارہ برائے سماجی انصاف تحقیق کے درج ذیل نتائج پیش کرتا ہے:
1) جماعتوں کے منشوروں میں ایک تہائی وعدے ایک جیسے تھے، جن میں متروکہ وقف املاک بورڈ (ETPB) میں اقلیتوں کی نمائندگی میں اضافہ، قانون سازی کے ذریعے اقلیتی کمیشن کا قیام، جبری تبدیلی مذہب کو جرم قرار دینا، نصاب پر ںظرِثانی، ملازمت کوٹے کا نفاذ اور امتیازی قوانین کا جائزہ لینا شامل تھا۔ وعدوں کا مشترک ہونا بھی مسائل حل کرنے میں معاون ثابت نہیں ہوا۔ ان وعدوں کا پورا نہ ہونا سنجیدگی اورعزم کے فقدان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
2) منشوروں میں کچھ 'منفرد وعدے' بھی شامل تھے مثلاً تعلیمی اداروں میں اقلیتی طلبہ کے لیے کوٹہ مختص کرنے، تکفیر کے قوانین کے غلط استعمال کو روکنا، قانون ساز اسمبلیوں میں اقلیتی خواتین کی نمائندگی اور آئینی اصلاحات متعارف کروانا۔ 'منفرد وعدوں' سے واضح ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں خواب دیکھنے کی ہمت بھی کرتی ہیں۔
3) وعدوں میں ایسے ایشوز بھی شامل ہو گئے جو حقیقی نہیں، فرضی تھے اور ان کا حل غیر منطقی اور غیر معقول تھا مثلاً مخصوص نشستوں پر براہ راست انتخابات اور اقلیت کی اصطلاح کو 'غیر مسلم' سے تبدیل کرنا۔ غالباً اسی وجہ سے سیاسی جماعتیں مذہبی آزادی اور شہریوں کے مساوی حقوق سے متعلق مسائل کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔
4) اگرچہ سیاسی جماعتیں اقلیتوں کو درپیش مسائل سے قدرے آگاہ تو ہیں، وعدے بھی کئے مگر عمل درآمد میں ناکام رہیں۔ من جملہ منشوروں میں کئے گئے وعدے مذہبی اقلیتوں کو درپیش مسائل کا گہرائی سے احاطہ نہیں کرتے۔
5) گزشتہ تین انتخابی منشوروں میں اقلیتوں کی سماجی و اقتصادی ترقی پر توجہ کم ہوئی ہے اور خیراتی اقدامات پر زیادہ۔
6) سیاسی جماعتوں کا انتخابات کے بعد وعدے فراموش کر دینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے انتخابی وعدوں کو اہمیت نہیں دیتیں۔ یہ بھی ہوا کہ اقتدار میں آنے والی جماعتوں نے پرانے وعدے وفا کئے بغیر نئے انتخابی منشور میں نئے وعدے شامل کر لئے۔ جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ مسائل کا سنجیدگی سے جائزہ ہی نہیں لیا گیا۔
7) 2008 سے 2022 تک متعارف کروائے گئے پالیسی اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نے قانون سازی کی بجائے انتظامی حکم نامے (نوٹیفیکیشن) جاری کرنے پر زیادہ انحصار کیا۔
جائزہ رپورٹ میں مذہبی اقلیتوں کی فلاح و بہبود، ترقی اور حقوق کے ضمن میں مختلف سفارشات بھی پیش کی گئی ہیں۔ ان میں مذہبی آزادی اور تعلمی پالیسی سے متعلق چھ چھ، سماجی ہم آہنگی کے بارے میں تین اور اقلیتوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے ضمن میں دس سفارشات شامل ہیں۔
یہ رپورٹ اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ چونکہ ملک میں نئے عام انتخابات متوقع ہیں لہٰذا یہ رپورٹ سیاسی جماعتوں کو اپنے اہداف اور منشوروں پر ازسرِنو جائزہ لینے کی دعوت دیتی ہے۔ دوئم مذہبی اقلیتیں بھی اس رپورٹ کے تناظر میں اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کریں اور سیاسی جماعتوں سے وعدے وفا کرنے کا مطالبہ کریں۔
مذکورہ رپورٹ 'وفاوں کا تقاضا ہے' اور ادارہ برائے سماجی انصاف کی دیگر رپورٹس www.csjpak.org پر دستیاب ہیں۔