سیاسی جماعتوں کے منشور میں ماحولیاتی تبدیلی کو جگہ کیوں نہیں ملتی؟

ملک پر حکمرانی کا خواب دیکھنے اور حکومت سنبھال کر عوامی مسائل حل کرنے کا دعویٰ کرنے والی سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کے نزدیک گذشتہ ایک برس میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے تباہی کا شکار ہونے والے لاکھوں انسانوں اور اربوں روپے کا انفراسٹرکچر شاید کوئی معنی ہی نہیں رکھتے۔

سیاسی جماعتوں کے منشور میں ماحولیاتی تبدیلی کو جگہ کیوں نہیں ملتی؟

جنوبی پنجاب کے شہری علاقوں سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کوہ سلیمان کے پہاڑی علاقے میں کئی آبادیاں موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں اپنا وجود کھوتی جا رہی ہیں اور ان میں بسنے والی زندگی بھی سسکنے پر مجبور ہے۔ اسی علاقے کی بستی فاضلہ کچھ کا رہائشی موسیٰ بزدار 2022 کے سیلاب کے بعد دربدر ہے۔ اس سیلاب میں اس نے اپنے دو بچے، مویشی اور کچا پکا گھر کھو دیا۔ جس کے بعد وہ اپنی اہلیہ، بیٹی اور چند بھیڑ بکریوں کے ہمراہ مختلف علاقوں میں خانہ بدوشوں جیسی زندگی بسر کرتے ہوئے سرد و گرم موسم کی سختیاں جھیل رہا ہے۔ اب گرمی کا موسم شروع ہونے کے ساتھ بارشوں اور برساتی نالوں کے بپھرنے کا خوف بھی موسیٰ بزدار کو واپس اپنے گھر اور زمین کی جانب نہیں جانے دے رہا۔

ماہ اگست 2022 میں، مون سون کی طوفانی بارشوں نے پاکستان کی تاریخ میں سب سے تباہ کن سیلاب کو جنم دیا۔ سیلاب کے پانی سے 33 ملین سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے۔ یہ حیرت انگیز تعداد کینیڈا کی آبادی کے قریب ہے۔ ملکی و غیر ملکی اداروں نے سماجی تنظیموں کے ساتھ انفرادی سطح پر عطیات اکٹھے کر کے فوری ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان لاکھوں سیلاب متاثرہ افراد کو ہنگامی طور پر خوراک، پانی، پناہ گاہ اور زندگی بچانے والی امداد فراہم کی۔ تاہم ایک برس گزرنے کے باوجود بھی کئی افراد نا صرف گھروں سے محروم ہیں بلکہ اپنی زمینوں کو بھی دوبارہ کاشت کے قابل نہیں بنا سکے ہیں۔

ملک بھر سمیت جنوبی پنجاب کے مختلف علاقہ جات میں مون سون کی بارشوں کے نتیجے میں پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی بہت زیادہ تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی رپورٹ کے مطابق ملک کا پانچواں حصہ بنیادی پبلک اور پرائیویٹ انفراسٹرکچر کی تباہی سے دوچار ہے۔ بنیادی ڈھانچہ سینکڑوں کلومیٹر سڑکیں، ریلوے لائنیں، ٹیوب ویل، فصلیں، بجلی کے ٹرانسفارمر، پل، مویشی، مکانات اور سکولوں کو نقصان پہنچا۔ اس کے علاوہ 1754 افراد ہلاک، 2697 زخمی اور 20 ملین بے گھر ہوئے۔ ملک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچا، جس کا خمیازہ قوم اب تک بھگت رہی ہے۔ تاہم حکومتی اداروں کی جانب سے اب تک موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کے اثرات کو کم کرنے کے لئے کوئی قابل ذکر اقدامات نہیں کیے گئے۔

موسیٰ بزدار نے بتایا کہ گذشتہ برس ہونے والی بارشوں سے قبل کسی نے ان کو آگاہ نہیں کیا اور صرف ریڈیو پر معمول سے زیادہ بارشیں ہونے کے بارے میں سنا، تاہم اس سمیت علاقے کے رہنے والے افراد نے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی۔ اس نے اپنی 53 سالہ زندگی میں پہلی بار اس قدر زیادہ بارش دیکھی کہ تمام پہاڑ برساتی نالوں کی صورت اختیار کر گئے۔ رات کو سوتے میں اس کا گھر گر گیا اور ایک حصے میں سوئے اس کے دو بیٹے، مویشی بھی پانی کے ساتھ بہہ گئے اور وہ اپنی اہلیہ، کمسن بیٹی اور بچ جانے والی چند بھیٹر بکریوں کے ساتھ کئی روز تک بارش میں بھیگتا رہا۔ اس دوران ان کے پاس کوئی امداد نہیں پہنچی۔ بہت دنوں تک وہ صرف بچ جانے والی گندم کو آگ پر بھون کر کھا کر گزارا کرتے رہے۔ اس نے بتایا کہ تقریباً دو ہفتوں کے بعد بارشیں تھمیں تو انہیں علاقے سے نکلنے کا موقع ملا، لیکن وہ پھر گھر واپس نہیں جا سکا کیونکہ اس کی معمولی زمین پر پہاڑوں سے اترنے والی مٹی اتنی زیادہ جمع ہو چکی ہے کہ اسے قابل کاشت بنانے کے لئے لاکھوں روپے درکار ہیں جبکہ اس کے پاس چند بھیٹریں، بکریاں بچی ہیں۔ وہ حکومتی کیمپ ختم ہونے کے بعد مختلف علاقوں میں گھوم پھر رہا ہے اور اب گرمی کا موسم شروع ہونے پر وہ دیگر لوگوں سمیت واپس جانے کا سوچ رہا ہے لیکن دوبارہ بارشیں ہونے کی اطلاعات سن کر خوفزدہ بھی ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

پاکستان میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کے پیش کیے گئے منشور میں موسمیاتی تبدیلی جیسے اہم مسئلہ سے نمٹنے کے لئے کوئی پلان موجود ہی نہیں تھا کیونکہ ملک پر حکمرانی کا خواب دیکھنے اور حکومت سنبھال کر عوامی مسائل حل کرنے کا دعویٰ کرنے والی سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کے نزدیک گذشتہ ایک برس میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے تباہی کا شکار ہونے والے لاکھوں انسانوں اور اربوں روپے کا انفراسٹرکچر شاید کوئی معنی ہی نہیں رکھتے۔ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے دنیا کے ممالک ایک خطیر رقم خرچ کرنے کے ساتھ تحقیق پر سر جوڑے بیٹھے ہیں لیکن پاکستان میں اس کے لئے کوئی سوچ ہی موجود نہیں ہے جبکہ ریلیف فراہم کرنے والے ادارے تباہی کی صورت میں صرف لوگوں کے انخلا کی ہی پلاننگ کر رہے ہیں۔

ڈپٹی ڈائریکٹر ماحولیات ڈاکٹر محمد ظفر اقبال کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلی مستقبل میں خوراک کی حفاظت، پانی کے معیار، گرمی کے دباؤ اور قدرتی آفات کی بڑھتی ہوئی تعداد کے براہ راست مضمرات انسانی صحت کے لیے خطرناک ہیں۔ پاکستان میں پہلے ہی ملیریا، ڈینگی، ٹائیفائیڈ اور ہیضہ جیسی بیماریاں نمایاں ہیں۔ پاکستان میں پہلے ہی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے اموات اور بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی وجہ سے گرمی اور سردی میں مسلسل اضافے کے باعث وبائی امراض کی شدت میں 12 سے 27 فیصد تک اضافہ ہوا ہے جبکہ ملیریا اور ڈینگی 31 سے 47 فیصد تک آب و ہوا کے نتیجے میں اضافہ متوقع ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں صحت کی قیمت پہلے ہی ایک ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس کے لیے آئین، قوانین اور ضوابط میں ترامیم کو تیز کرنا، گرین ہاؤس گیسز کی تخفیف کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا اور موسمیاتی تبدیلی کے اہم شعبوں میں سائنسی تحقیق اور تکنیکی ترقی کو فروغ دینا بہت ضروری ہے۔

واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ ایجنسی (واپڈا) کے مطابق فی کس سطحی پانی کی دستیابی 1951 میں 5260m3  سالانہ سے گھٹ کر صرف 1000m3  رہ گئی ہے۔ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث بجلی کی بڑھتی ہوئی مانگ کے باعث آئی پی سی سی نے بھی میٹھے پانی کی دستیابی میں مسلسل کمی کی پیش گوئی کی ہے، خاص طور پر دریائے سندھ، جس کا بہاؤ سطحی پانی کا بنیادی ذریعہ ہے، اس میں متوقع کمی کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس طرح ہمالیائی گلیشیئرز اور برف پوش دریاؤں میں کمی، درجہ حرارت اور بارش کے تغیر، مختصر مدت میں، تیزی سے برف پگھلنے سے دریا کے نظاموں میں پانی کے بہاؤ میں اضافہ اور زیادہ ہونے کی توقع ہے، لیکن جیسے جیسے گلیشیئر کم ہوتے جاتے ہیں اسی طرح دریاؤں میں پانی کی شدید قلت کا باعث بھی بنے گا۔

ڈائریکٹر کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ڈاکٹر ساجد محمود کا کہنا ہے کہ دریاؤں کے اوسط بہاؤ میں کمی کے زراعت پر سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ملک میں زرعی پیداوار کے لیے 93 فیصد تازہ پانی استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان میں پانی کی کمی کے باعث اناج کی پیداوار میں متوقع 12 ملین ٹن خسارہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ متبادل ذرائع سے پانی کی رسائی بھی کم ہو رہی ہے۔ پاکستان زیر زمین پانی نکالنے کی حد کو پہنچ چکا ہے۔ اس صورت حال سے قومی توانائی کے لیے خطرے میں نمایاں اضافہ ہونے کا امکان ہے، کیونکہ ملک میں پن بجلی توانائی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ اس وجہ سے موسمیاتی تبدیلی سے فوری طور پر نمٹنا ضروری ہے اور اس کے لیے خطیر رقم درکار ہے جو پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک برداشت نہیں کر سکتا۔ اس لیے عالمی ممالک و اداروں کو پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کے لیے بڑے پیمانے پر امداد کرنی چاہیے۔

یوسف عابد گزشتہ 20 سال سے صحافت کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ وہ روزنامہ خبریں، ایکسپریس، جنگ اور دنیا کے لیے ملتان سے رپورٹنگ کرتے رہے ہیں۔