سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ 1952 کا اطلاق مخصوص افراد پر ہوتا ہے، سب پر نہیں ہوتا۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔
اٹارنی جنرل نے 9 مئی واقعات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ کور کمانڈر ہاؤس لاہور ، میانوالی ، سیالکوٹ ، راولپنڈی ، بنوں میں واقعات پیش آئے۔ پی ایف بیس میانوالی کی باؤنڈری دیوار کو نشانہ بنایا گیا۔ جہاں میراج فائٹر طیارے موجود تھے۔ حمزہ کیمپ آئی ایس آئی آفس راولپنڈی، سگنل میس اور اے ایف آئی سی ، چکلالہ راولپنڈی پر بھی حملے ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ فیصل آباد میں آئی ایس آئی دفتر پر حملے میں ملوث افراد مسلح تھے، 62 واقعات صرف پنجاب میں پیش آئے۔ جن میں 198 سیکورٹی اہلکاروں سمیت 250 لوگ زخمی ہوئے۔ نو مئی واقعات میں مجموعی طور پر 2.5 بلین روپے کا نقصان ہوا۔ یہ واقعات اچانک نہیں منظم طریقے سے کیے گئے۔ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی دہشت گردی کا سامنا رہا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے انہیں بتایا کہ مظاہرین نے 9 مئی کو کور کمانڈر ہاؤس کے اندر مسجد پر بھی حملہ کیا۔ ایک حملہ آور نے کور کمانڈر کی وردی پہن لی تھی۔ فوجی افسران پولیس کی طرح مظاہرین سے لڑنے کے لیے ٹرینڈ نہیں ہوتے۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ فوجی صرف گولی چلانا جانتے ہیں؟
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعے پر فوج نے لچک کا مظاہرہ کیا۔ فوج ہتھیار چلانے میں مکمل تربیت یافتہ ہوتی ہے۔ فوجی افسران کی پولیس کی طرح مظاہرین سے نمٹنے کی تربیت نہیں ہوتی۔ انہیں اس طرح کے جتھوں کو منتشر کرنا نہیں سکھایا جاتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ راولپنڈی بار کیس میں سول نوعیت کے جرائم کو آرمی ایکٹ میں لے جایا گیا تھا۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ اس وقت حالات مختلف تھے۔ ملٹری ایکٹ کے تحت ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم کی گئی تھی۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ 9 مئی کے واقعات میں جن جرائم کے تحت چارج لگایا گیا یہ آرمی ایکٹ میں آتے ہیں۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ جن افراد کا آپ ٹرائل کرنا چاہ رہے ہیں وہ سویلینز ہیں۔ کیا آرٹیکل 175/2 کو مدِ نظر رکھے بغیر سویلینز کا ٹرائل ہو سکتا ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ پوائنٹ یہ ہے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ 9 مئی کے واقعات اپنی نوعیت کے پہلے واقعات تھے۔ آپ کے مطابق 9 مئی سے پہلے کبھی کسی سویلین نے فوجی تنصیبات پر حملہ نہیں کیا۔ آئینی سوالات سے پہلے کچھ سوالات کا جواب ضروری ہے۔ جو 102 افراد فوجی حراست میں ہیں ان کا تحفظ کیسے یقینی بنایا جائے گا؟ یہ نکتہ بھی ہے کہ مجسٹریٹ کے اختیارات دوسرا کون استعمال کر سکتا ہے؟ فوجداری معاملات کا ماہر نہیں ہوں مگر جو دفعات لگائی گئیں ان کو بھی دیکھنا ہو گا۔ درخواست گزار یہ نہیں کہہ رہے کہ ان افراد کو رہا کر دیں اور سزا نہ دی جائے۔ صرف یہ بتا دیں کہ کیسے ان افراد کا کیس غیر جانبداری سے دیکھا جائے گا؟ کون سی دفعات لگائی گئی ہیں؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ ملزمان کے جرائم سول نوعیت کے نہیں ہیں۔ ملزمان پر دفعہ 302 کا اطلاق بھی کیا گیا ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا کسی آرمی افسر کی ڈیتھ بھی ہوئی؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ کسی آرمی افسر کے جانی نقصان کی کوئی اطلاعات نہیں ہیں۔
جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ جب کسی آرمی افسر کی ڈیتھ نہیں ہوئی تو دفعہ 302 کیسے لگا دی گئی؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ یہ دلائل ہدایات پر نہیں دے رہا۔ جو آج حقائق بتائے ان کی بنیاد پر ہی کہہ رہا تھا کہ فل کورٹ بنا کر کیس سنا جائے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت جرائم کی سزائیں اور نوعیت مختلف ہے۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ تفتیش میں پریزائڈنگ افسر کون ہو گا؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل پریزائڈنگ افسر ہوں گے۔ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل ٹرائل میں نہیں ہوں گے۔ سمری کورٹ مارشل میں فیلڈ کورٹ مارشل ہوتا ہے لیکن وہ مختلف چیز ہے۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے پھر استفسار کیا کہ پہلے یہ سوال ہے کہ سویلینز کو آرمی ایکٹ کے دائرے میں لائیں گے کیسے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کل بھی عرض کی تھی کہ آرٹیکل 175 تھری کہتا ہے کہ ایگزیکٹیو اور عدلیہ الگ ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آرمی ایکٹ ایک مخصوص کلاس پر لگتا ہے، سب پر نہیں لگتا۔ آپ کو ایک تجویز دیتے ہیں کہ آرمی ایکٹ پر ہدایات لے لیں۔ آپ ایک دو دن کا وقت لے لیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے استدعا کی کہ پرسوں تک کا وقت دے دیں۔
عدالتِ عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کی استدعا منظور کرتے ہوئے کیس کی سماعت جمعے کی صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ حکومت نے 9 مئی کو ملک بھر میں پھوٹنے والے پرتشدد ہنگاموں کے بعد فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچانے اور ان پر حملہ کرنے کے مرتکب افراد کے خلاف فوجی عدالت میں ٹرائل کرنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان، سابق چیف جج جواد ایس خواجہ، قانونی ماہر اعتزاز احسن اور سول سوسائٹی کے پانچ نمائندوں بشمول پائلر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کرامت علی نے سپریم کورٹ سے فوجی ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف کیس میں فُل کورٹ تشکیل دینے کی حکومتی استدعا مسترد کر دی تھی۔ ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس وقت ججز دستیاب نہیں۔ فل کورٹ تشکیل دینا نا ممکن ہے۔ یہ کیس تعطیلات کے دوران مقرر ہوا۔ تعطیلات کے دوران ججز دستیاب نہیں ہوتے۔