Get Alerts

شاہد خاقان عباسی سیاست کیلئے اپنا وقار اور اصول پسندی قربان کر رہے ہیں

اپنی پارٹی کی رونمائی والی پریس کانفرنس سے لے کر حالیہ پریس کانفرنس تک وہ صرف اور صرف مسلم لیگ ن کے مخالف نظر آتے ہیں۔ انہیں حق حاصل ہے کہ وہ اپنی جماعت بنائیں لیکن ان جیسے باوقار سیاست دان سے اپنی سابقہ جماعت کی مخالفت میں وزن سے عاری دلائل کی امید نہیں کی جا سکتی تھی۔

شاہد خاقان عباسی سیاست کیلئے اپنا وقار اور اصول پسندی قربان کر رہے ہیں

شاہد خاقان عباسی ایک منفرد مقام کے حامل سیاست دان کہلاتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر ان سے واقف ہوں اور میں نے انہیں دوسروں کو عزت دینے والا پایا۔ انہوں نے 1990 کی دہائی میں مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی اور پھر مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔ مشرف دور میں بھی وہ حکومت کا حصہ بن سکتے تھے لیکن انہوں نے ایک اصول پسند سیاست دان ہونے کا ثبوت دیا اور اپنی جماعت کے ساتھ کھڑے رہے۔ اپنے قائد سے ہر حال میں وفا نبھائی اور اس کے صلے میں انہیں پارٹی کا سینیئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر بنایا گیا۔

2018 کے انتخابات میں وہ مری سے اپنی سیٹ ہار گئے تو قائد نے انہیں لاہور سے سیٹ خالی کروا کر منتخب کروایا۔ عمران خان کے دور حکومت میں جہاں دیگر پارٹی رہنماؤں کو پابند سلاسل کیا گیا وہاں انہیں بھی پس دیوار زنداں بھیج دیا گیا۔ نواز شریف کی جلا وطنی اور شہباز شریف کی قید کے دوران عباسی صاحب پارٹی کے امور چلاتے رہے۔ اس دوران کئی بار انہوں نے لندن جا کر نواز شریف سے پارٹی امور پر مشاورت بھی کی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں تھا۔

جب مریم نواز نے رہائی کے بعد جلسے کرنے شروع کیے اور عمران حکومت اور اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کو للکارا تو عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کر کے انہیں ایک مقبول لیڈر بنا دیا۔ دوسری طرف گوناں گوں خوبیوں کا مالک ہونے کے باوجود عوامی سطح پر پذیرائی نہ ملنے کی وجہ سے نواز شریف نے اپنی بیٹی مریم کو پارٹی کا چیف آرگنائزر اور سینیئر نائب صدر بھی بنا دیا۔ عباسی صاحب نے شاید اسی اپنی بے توقیری جانا اور وہاں سے ان کی راہیں اپنی پارٹی سے جدا ہو گئیں۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

جب سے عباسی صاحب اپنی نئی جماعت کے ساتھ سامنے آئے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مسلم لیگ ن کی مخالفت کر کے وہ پنجاب میں اپنی جگہ بنانا چاہتے ہیں۔ اپنی پارٹی کی رونمائی والی پریس کانفرنس سے لے کر حالیہ پریس کانفرنس تک وہ صرف اور صرف مسلم لیگ ن کے مخالف نظر آتے ہیں۔

ہر سیاست دان کی طرح انہیں بھی حق حاصل ہے کہ وہ اپنی جماعت بنائیں لیکن کم از کم ان جیسے باوقار سیاست دان سے اپنی سابقہ جماعت کی مخالفت میں وزن سے عاری دلائل کی امید نہیں کی جا سکتی تھی۔ وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ کی گفتگو کے بعد انہوں نے کہا کہ جمہوری دور میں آج تک کسی سیاسی پارٹی پر پابندی نہیں لگائی گئی۔ کیا عباسی صاحب کو یاد نہیں رہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں نیشنل عوم پارٹی پر پابندی لگائی گئی تھی؟

پھر وہ فرماتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دے کر اپنے ماضی کے داغ دھو دیے۔ کون سے داغ عباسی صاحب؟ کیا آئین کے برخلاف فیصلہ دینے سے داغ دھل گئے یا مزید گہرے ہو گئے؟ کیا آپ کے نزدیک سپریم کورٹ کے 5 سینیئر ججز نے آئین سے ہٹ کر فیصلہ دیا؟

عباسی صاحب کو سیاست کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے لیکن اگر سیاست میں رہنا ہے تو اپنے قول و فعل کا تضاد دور کر لیں۔ مجھے عباسی صاحب کے موجودہ کردار سے بہت مایوسی ہوئی ہے کیونکہ مجھے ملک ایک اصول پسند سیاست دان سے محروم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔