Get Alerts

عدم استحکام برقرار رہا تو ہٹلر جیسا کوئی طالع آزما فائدہ اٹھا سکتا ہے

پاکستان اس وقت ایک ایسے ہی معاشی بحران سے دوچار ہے جس کا 1920 کی دہائی میں جرمنی کو سامنا تھا۔ افراط زر اور مہنگائی عروج پر ہیں، دہشت گرد کارروائیوں میں شدت آ چکی ہے۔ اگر سیاسی اور عسکری قیادت دہشت گردی پر قابو پانے سے متعلق نااتفاقی کا شکار رہی تو ہٹلر جیسا کوئی طالع آزما اقتدار پر قابض ہو سکتا ہے۔

عدم استحکام برقرار رہا تو ہٹلر جیسا کوئی طالع آزما فائدہ اٹھا سکتا ہے

ممکن ہے کہ اس کالم کا عنوان قارئین کے لیے عجیب اور چونکا دینے والا ہو، لیکن ملک کے حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو صورت حال اتنی مختلف نہیں۔ موجودہ حالات پر بات کرنے سے پہلے، آئیے ایک صدی پہلے کے ماضی کی طرف چلتے ہیں جب پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد جرمنی ایسے سیاسی حالات میں پھنس گیا تھا جو ہٹلر جیسے مطلق العنان حکمران کے ابھرنے میں معاون ثابت ہوئے۔

جرمنی کی شکست اور قیصر روم کی معزولی کے بعد 1918 میں جمہوریہ ریپبلک کا قیام عمل میں آیا، لیکن اس کے ساتھ ہی جرمنی شدید بحرانات کا شکار ہو گیا؛ سماجی بحران، معاشی بحران اور جنگ سے مایوسی ان بحرانوں کی بڑی وجوہات تھیں۔ وارسائی کے معاہدے نے جرمنی پر سخت پابندیاں عائد کیں اور اس پر 30 ارب ڈالر کا ہرجانہ عائد کیا، جس سے جرمنی کی نوزائیدہ جمہوری ریپبلک کی سیاسی حیثیت کو شدید دھچکا لگا۔ 1923 میں کساد بازاری اور ہوشربا مہنگائی نے جرمنی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ابھی وہ اس بحران سے نکل بھی نہ سکا تھا کہ 1929 کے عالمی معاشی بحران کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، جس نے جرمنی کو مزید غیر مستحکم کر دیا۔ نتیجتاً، جرمنی شدید بے روزگاری، غربت اور مہنگائی کے ایسے جال میں پھنس گیا جس نے اس کی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیا۔

جرمنی کی نوزائیدہ جمہوریت کی تمام کوششیں ان بحرانی حالات سے نمٹنے میں ناکام رہیں۔ ان حالات سے جس پارٹی نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا، وہ نازی پارٹی تھی، جس کی قیادت ہٹلر کر رہا تھا۔ ہٹلر نے ان حالات کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کیا اور کوئی بھی ایسا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا جو اس کے لیے موزوں ہو۔

1923 میں ہٹلر نے بغاوت کی ناکام کوشش کی جس کے نتیجے میں اسے قید کر لیا گیا اور بغاوت کے الزام میں جیل کی سزا ہوئی۔ لیکن اس نے قید و بند کی صعوبتوں کو بھی اپنے لیے قومی توجہ حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لیا۔ اس کی شہرت میں اضافہ ہوتا گیا اور وہ ہر لمحہ لوگوں کی بے روزگاری اور وارسائی معاہدے سے ملک کی بے عزتی کو جمہوری حکومت کی ناکامی ثابت کرنے کے لیے استعمال کرتا رہتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ جرمن عوام کے لیے نجات دہندہ بن گیا اور نازی پارٹی انتخابات میں مسلسل کامیابیاں حاصل کرتی چلی گئی۔

1933 کے انتخابات میں نازی پارٹی 43.9 فیصد ووٹ حاصل کر کے ملک کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی۔ جمہوری طریقے سے برسراقتدار آنے والی نازی پارٹی نے سب سے پہلے جس ادارے کو اپنے مذموم ارادے کیلئے نشانہ بنایا وہ تھی جرمنی کی جمہوریہ ریپبلک۔ ایمرجنسی کے نام پر اس کا فوری خاتمہ کر دیا گیا اور اس طرح ہٹلر نے اپنے آمرانہ عزائم کے خلاف سب سے بڑی رکاوٹ کو راستے سے ہٹا دیا۔ اب وہ جرمنی کے سیاہ و سفید کا مکمل طور پر مالک بن چکا تھا۔

جرمنی میں آمرانہ حکومت کے قیام کے بعد ہٹلر نے اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں پر عمل درآمد شروع کر دیا۔ مارچ 1936 میں اس نے وارسائی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جرمن فوج کو رائن لینڈ میں داخل ہونے کا حکم دیا۔ مارچ 1938 میں جرمنی نے آسٹریا پر قبضہ کر لیا۔ ستمبر 1938 میں ہٹلر نے میونخ معاہدے کے ذریعے سودیٹن لینڈ کو ضم کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ مزید کوئی توسیع پسندانہ کارروائی نہیں کرے گا۔

تاہم مارچ 1939 میں اس نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چیکوسلوواکیا پر قبضہ کر لیا۔ چھ ماہ بعد اس نے پولینڈ پر حملہ کر دیا، جو دوسری جنگ عظیم کے آغاز کا سبب بنا۔

جرمنی کی توسیع پسندانہ کارروائیوں کے دوران برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک جرمنی کے اس رویے کا مقابلہ کرنے سے ہچکچاتے رہے اور اس کے ان اقدامات کو وارسائی معاہدے کی سخت پابندیوں کا منطقی نتیجہ سمجھتے رہے۔ اس رویے کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ بہت سے یورپی ممالک، بالخصوص برطانیہ، نازی جرمنی کو سوویت یونین کی جانب سے کمیونزم کے پھیلاؤ کے خلاف ایک اہم مدافعتی قوت کے طور پر دیکھتے تھے۔

ستمبر 1936 میں سابق برطانوی وزیر اعظم لائیڈ جارج نے جرمنی کا دورہ کیا اور ہٹلر سے ملاقات کے بعد روزنامہ ڈیلی ایکسپریس میں لکھا کہ جرمنی برطانیہ کے لیے کوئی خطرہ نہیں اور وہ برطانیہ کے خلاف کوئی جنگی کارروائی نہیں کرنا چاہتا۔ بعد میں برطانیہ کے اس وقت کے وزیراعظم، نیول چیمبرلین نے بھی جرمنی کے بارے میں ایسا ہی رویہ اختیار کیا۔ 1938 میں چیمبرلین نے میونخ معاہدے کو دوسرے یورپی قائدین کے ساتھ اتفاق رائے کے ساتھ منظور کیا۔ اس کے ذریعے ہٹلر کو سودیٹن لینڈ کو ضم کرنے کی اجازت مل گئی۔ چیمبرلین نے اس معاہدے کو 'بے مثال امن' سے تعبیر کیا اور دعویٰ کیا کہ اس نے ایک ہولناک جنگ کو ٹال دیا ہے۔

یورپی قائدین کی غلط فہمیاں اور اندازے جرمنی کی فاشسٹ اور ظالمانہ حکومت کو اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے میں نہایت مددگار ثابت ہوئے اور آہستہ آہستہ حالات ایسا رخ اختیار کرتے چلے گئے کہ جنگ کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہ رہا۔ ہٹلر ناصرف ایک کے بعد دوسرے ملک پر قبضہ کرتا چلا گیا بلکہ اندرونی طور پر اقلیتوں اور خواتین کو اپنی سخت گیر پالیسیوں کا نشانہ بھی بناتا رہا۔ ہٹلر کی ان توسیع پسندانہ پالیسیوں نے دنیا کو جس جنگ عظیم میں دھکیلا اور اس کے بعد دنیا کے حالات نے جو رخ اختیار کیا، وہ سب کے علم میں ہے، اس لیے اس پر مزید گفتگو کی ضرورت نہیں۔

اب ہم ماضی سے نکل کر حال پر نظر ڈالتے ہیں اور پاکستان کی اس تصویر کا جائزہ لیتے ہیں جس کا ہم سب سامنا کر رہے ہیں۔ ان حالات کا موازنہ ایک صدی قبل کے جرمنی کے واقعات سے موازنہ کرنے پر یہ سمجھنا آسان ہو جائے گا کہ دونوں میں کس قدر مماثلت پائی جاتی ہے۔

پاکستان اس وقت ایک ایسے ہی معاشی بحران سے دوچار ہے جس کا 1920 کی دہائی میں جرمنی کو سامنا تھا۔ افراط زر اور مہنگائی عروج پر ہیں، جبکہ بیرونی قرضوں کا بوجھ سالانہ بجٹ کا نصف حصہ کھا جاتا ہے۔ دفاعی اخراجات بھی بجٹ کا ایک بڑا حصہ نگل جاتے ہیں، جس کے باعث ترقیاتی پروگراموں اور سول حکومت کے لیے بہت کم وسائل بچتے ہیں۔ بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے اور ایک اندازے کے مطابق آبادی کا تقریباً 40 فیصد حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

سیاسی طور پر پاکستان کی موجودہ صورت حال یہ ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے اتحاد پر قائم ایک کمزور حکومت برسراقتدار ہے۔ اپوزیشن پارٹی کے قائد غداری کے الزام میں زیر حراست ہیں، تاہم ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف اس وقت ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ حراست میں ہونے کے باوجود انہیں اپنی جماعت کے قائد کی حیثیت سے کام کرنے کی اجازت ہے اور وہ حکومت اور دیگر اہم اداروں پر تنقید کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔

پاکستان کی خارجی اور داخلی صورت حال کافی غیر مستحکم ہے اور اس وقت اسے اپنے دو ہمسایہ ممالک، بھارت اور افغانستان، سے شدید معاندانہ رویوں کا سامنا ہے۔ افغانستان نے تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں کو پناہ دے رکھی ہے اور پاکستان میں ان کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے جو پاکستان کے داخلی و خارجی امن و سکون کے لیے شدید خطرات پیدا کر رہے ہیں۔ یہ صورت حال کافی حد تک ویسی ہے جو کبھی برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کو جرمنی میں ہٹلر کی حکومت کی وجہ سے پیش آ رہی تھی۔

ان خطرات کے پیش نظر پاکستانی حکومت نے حال ہی میں یہ فیصلہ کیا کہ وہ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کے لیے بڑے پیمانے پر ایک عسکری کارروائی 'عزمِ استحکام' کے نام سے شروع کرے گی۔ اس فیصلے کے نتیجے میں کچھ سیاسی اور مذہبی جماعتوں، خصوصاً پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ نے فوری طور پر اپنے ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے اس کارروائی کی مخالفت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ حکومت اس قسم کی کارروائی تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کے بعد شروع کرے۔ وزیر اعظم نے اس صورت حال کے پیش نظر ایک آل پارٹیز کانفرنس بلانے کی پیشکش کی، جس پر مختلف سیاسی جماعتوں بشمول پی ٹی آئی نے مثبت رویے کا مظاہرہ کیا۔

تاہم، عسکری ادارے کے کور کمانڈروں کی 265 ویں کانفرنس کے دوران فوج کے سربراہ نے سوشل میڈیا پر اس عسکری کارروائی کے بارے میں غیر سنجیدہ تنقید کا سخت نوٹس لیا اور اس پر بھرپور اعتراضات کیے۔

عسکری قوت کی جانب سے اس بیان کے ایک دن بعد پی ٹی آئی کے ایک نمائندے نے فوج کے سربراہ کے بیانیہ پر اپنے فوری ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا کہ آزادیِ اظہار کو جرم قرار دینا ہر قسم کے اظہار رائے کے خلاف قانونی اقدامات کا راستہ کھول دے گا۔ انہوں نے سرکاری اداروں پر زور دیا کہ وہ اظہار رائے اور تنقید پر کھلے دل کا مظاہرہ کریں کیونکہ عوام اور سیاسی جماعتوں کی تنقید ملکی مسائل کو حل کرنے میں نہایت اہم کردار کرتی ہے۔ پی ٹی آئی کے نمائندے نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دنیا میں کوئی بھی فوج کسی بھی چیلنج کا کامیابی سے مقابلہ نہیں کر سکتی اگر اسے عوام کی حمایت حاصل نہ ہو۔

عوامی حمایت کی اہمیت کو ملکی مسائل کے حل کیلئے ضروری قرار دینے کے فوری بعد پی ٹی آئی نے ایک اور بیان جاری کیا جس میں اس نے زور دیا کہ پاکستان کو افغان طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، اگر وہ تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کے خلاف عسکری کارروائی سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

جس بات کو سمجھنے میں عسکری قوت کو دو دہائیاں لگی تھیں کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں وہ بات تحریک انصاف کے قائد کو سمجھنے میں شاید ابھی اور وقت درکار ہے، کیونکہ وہ ملک میں جاری دہشت گردی کے بارے میں ابھی بھی اپنے پرانے مؤقف پر قائم ہیں۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

دو برس قبل 2022 کی آخری سہ ماہی میں جب وادی سوات کے لوگ دہشت گردوں کی آمد پر احتجاج کرنے لگے تھے، تو تحریک انصاف کے بیرسٹر سیف نے ایک بیان جاری کیا تھا جو دہشت گردوں کے بارے میں ان کی رائے کا بھرپور عکاس ہے۔ انہوں نے خیبر پختونخوا میں سکیورٹی کی صورت حال خراب کرنے میں طالبان کے بجائے طالبان کے مخالف گروہوں کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ طالبان کا قتل و غارت گری یا بھتہ خوری میں کوئی ہاتھ نہیں۔

پاکستان آرمی نے بھی ان احتجاجات کو رد کرتے ہوئے سوشل میڈیا پرالزام لگایا کہ انہوں نے طالبان کی وادی سوات میں موجودگی کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے اور اس طرح ایک غلط تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔

بیرسٹر سیف نے اپنی بیان بازی میں مزید اضافہ کرتے ہوئے بڑے فخر سے دعویٰ کیا کہ اگر دو ہزار مسلح افراد بھی صوبے میں داخل ہو جائیں تو حکومت کے پاس اس کا جواب دینے کے لئے کافی وسائل موجود ہیں۔ انہوں نے کہا، 'ہمارے پاس ٹینک، بندوق اور لڑاکا طیارے ہیں۔ چند ہزار کلاشنکوف بردار حکومت کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سوات میں صرف 40 سے 50 عام رائفلوں سے مسلحہ افراد آئے ہیں'۔

اس بیان کے ایک ماہ بعد، خیبر ضلع میں تیرہ وادی کے کئی علاقوں سے لوگوں کی یکایک نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ مقامی حکام نے اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر بتایا کہ لوگوں نے علاقے میں دہشت گردوں کو دیکھا ہے۔ حکام نے یہ بھی بتایا کہ سینڈا پال، جرہوبی، دعاخیلے، بغرائی، خاپور اور ڈرے نغہاری سے خاندان کے خاندان نقل مکانی کر کے اورکزائی کے قبائلی ضلع میں جا کر پناہ لے رہے ہیں یا درس جمعات، شیرخیل اور مرگٹخیل کے علاقوں میں اپنے رشتے داروں یا دوستوں کے پاس پناہ حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ان حکام نے یہ بھی بتایا کہ یہ لوگ کمرخیل، اکاخیل، زخاخیل اور سپاہ قبائل سے تعلق رکھتے ہیں جو ایک دہائی کی نقل مکانی کے بعد واپس آئے تھے اور اب دوبارہ انہی حالات کا شکار ہو گئے ہیں۔

افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان نے امن پسندی کی سیاست اپنائی ہے اور مسلسل کوشش کی ہے کہ دہشت گردوں کو خوش اور مطمئن رکھ سکیں لیکن اس کے مثبت نتائج نکلنے کے بجائے دہشت گردی میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ اس پالیسی نے مختلف دہشت گرد اور باغی گروہوں کو دوبارہ اکٹھا ہونے اورایک مشترکہ مقصد کی خاطر آپس میں متحد ہونے میں بھرپور وقت اور مواقع فراہم کیے ہیں۔ ان کے مشترکہ مقاصد کا بنیادی ہدف اب ملک کے سکیورٹی نظام کو کمزور کرنا ہے۔ یہ گروہ عام لوگوں میں خوف پیدا کرتے ہیں اور تباہ کن سبوتاژی اور افراد کو اغوا کرنے کے علاوہ حکومتی افسران اور سیاست دانوں کو اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں سے مسلسل خوفزدہ کرتے ہیں اور انہیں مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی سے اجتناب برتیں۔

اب صورت حال یہ ہے کہ 2020 سے لے کر 2023 کے اختتام تک طالبان اور دوسرے باغیوں کی دہشت گردی کی کارروائیوں سے ہونے والی اموات میں تقریباً 140 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ 2020 میں 412 افراد ان کی دہشت گردی کا نشانہ بنے تھے جو 2023 میں بڑھ کر 985 تک پہنچ گئی۔ صرف 2024 کے پہلے چھ ماہ میں، پاکستان میں ان حملوں کے باعث 516 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اگر دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا یہی رجحان جاری رہا تو سال کے اختتام تک ان واقعات سے ہونے والی اموات کی تعداد 1,000 سے بھی زیادہ ہو سکتی ہیں۔ (گراف 1 ملاحظہ کریں)

بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ان چار سالوں کے دوران سب سے زیادہ دہشت گردی کے واقعات ہوئے، جیسا کہ گراف 2 سے ظاہر ہوتا ہے۔

بیرسٹر سیف کے مطابق عام رائفلوں سے مسلح قرار دیے جانے والے عسکریت پسند کس حد تک خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سکیورٹی آپریشنز کو ناکام بنا چکے ہیں، اس کا اندازہ گراف 3 اور 4 سے لگایا جا سکتا ہے۔

ان دہشت گرد حملوں کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے کے لیے صوبے کے سکیورٹی نظام کو بہتر بنانے کے بجائے پی ٹی آئی حکومت اور اس کے رہنماؤں نے ٹی ٹی پی کے ساتھ رابطے برقرار رکھنے اور ان کے ساتھ مذاکرات کرنے میں اپنی عافیت سمجھی ہے جس کی وجہ باآسانی سمجھی جا سکتی ہے۔

اوپر دیے گئے اعداد و شمار کی بنیاد پر بنائے گئے گراف واضح کرتے ہیں کہ دہشت گرد پی ٹی آئی کے بیرسٹر سیف کے تجزیہ کے برخلاف کہیں زیادہ جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ ان کے پاس وہ جدید ہتھیار اور گولہ بارود ہے جو انہیں افغان طالبان نے فراہم کیے ہیں، جو افغان طالبان نے امریکا اور نیٹو کے اڈوں سے حاصل کیے تھے جب وہ افغانستان سے راہ فرار اختیار کر رہے تھے۔ پاکستان بار ہا مختلف بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر دہشت گردوں کے پاس جدید ہتھیاروں کی موجودگی کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کرتا رہا ہے۔

جدید ہتھیاروں سے لیس دہشت گردوں کی تنظیم، جسے ناصرف پڑوسی ملک میں محفوظ پناہ گاہیں میسر ہیں بلکہ پاکستان کے اندر بھی اس کے حامی موجود ہیں، اس کے لیے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے اس سے زیادہ نادر موقع پھر کبھی حاصل نہیں ہو سکتا اور وہ کبھی بھی اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیں گے۔ انہیں مذاکرات کی میز پر لانے اور ہماری شرائط پر متفق کرنے کی توقع غیر حقیقی اور خام خیالی کے علاوہ کچھ بھی نہیں، خاص طور پر ایسے حالات میں کہ جب عسکریت پسند مسلسل اپنے اہداف کو وسعت دینے میں کامیاب ہو رہے ہیں، شاہراوں پر رات اور حتی کہ دن کے وقت بھی چیک پوسٹ قائم کر کے مسافروں کی شناخت کرنے لگے ہیں تا کہ ان میں موجود فوج یا پولس کے اہلکار کا پتہ چلا سکیں اور پھر انہیں اغوا کر سکیں یا اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنا سکیں۔ یہی نہیں، وہ بار ہا پاکستانی سرحدیں عبور کر کے پاکستانی علاقوں میں در آتے ہیں اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے ذریعے علاقے کے امن کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

اس وقت جبکہ پاکستانی لیڈرشپ دہشت گردی کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کے بارے میں تذبذب اور نااتفاقی کا شکار ہے طالبان کے دو دھڑوں (گل بہار گروپ اور جماعت الاحرار) نے پاک فوج کے مجوزہ عظمتِ استحکام آپریشن کے خلاف اپنے آپریشنز (الفتح اور الرعد) شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے تاکہ وہ متوقع عسکری کارروائی کے خطرے کا آسانی سے مقابلہ کر سکیں۔

اگر ملک میں پھیلی دہشت گردی کے بارے میں اوپر دیے گئے تجزیات سے سیاسی اور سرکاری رہنماؤں کو حالت کی سنگینی کا احساس نہ ہو سکے، تو پھر ہمیں اس غیر ذمہ دارانہ رویے کے نتیجے میں برپا ہونے والے دہشت گردی کے اس بحران کو سہنے کے لیے تیار رہنا پڑے گا جو اس ملک کا مقدر ہو گا۔

امید ہے کہ ہمارے رہنماؤں کی اس چپقلش اور نااتفاقی سے ایسے حالات جنم نہیں لے سکیں گے جو ہٹلر جیسے کسی مہم جو یا طالع آزما کیلئے فائدہ مند ثابت ہوں۔