کرونا وائرس کی دوسری لہر کا آغاز؟: چین، جنوبی کوریا اور جرمنی میں لاک ڈاؤن کھولنا مہنگا پڑ گیا

کرونا وائرس کی دوسری لہر کا آغاز؟: چین، جنوبی کوریا اور جرمنی میں لاک ڈاؤن کھولنا مہنگا پڑ گیا
دنیا  پچھلے پانچ ماہ سے زائد عرصہ سے کرونا وائرس کی اس عالمی وبا سے نمٹنے میں مصروف ہے۔ اور اس جنگ میں اب تک دو لاکھ 80 ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔ ایک طرف طبی ماہرین کی جانب سے کرونا وائرس سے بچنے کے لئے کیئے گئے اقدامات کو ابھی جاری رکھنے پر زور دیتے ہوئے لاک ڈاونز کو برقرار رکھنے کی ہدایت کر رہے ہیں تو مختلف ملکوں کی حکومتیں معاشی بد حالی کو بنیاد بنا کر لاک ڈاؤن فوری طور پر کھولنے کے درپے ہیں۔ 

دلچسپ طور پر پاکستان جہاں وبا اس وقت اپنے جوبن پر ہے وہاں  معاشی ابتری کے مفروضے کو بنیاد بنا کر لاک ڈاؤن میں نرمی کر دی گئی ہے۔

تاہم دنیا بھر میں جہاں جہاں لاک ڈاؤن کھولا جا رہا ہے وہاں کرونا وائرس کے کیسز میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے بلکہ ایسے ممالک اور شہر جنہیں پہلے کرونا سے پاک قرار دیا گیا تھا وہاں پھر سے کرونا کے کیسز نمودار ہو گئے ہیں۔

اس فہرست میں چین کا شہر ووہان جہاں سے یہ وبا پھوٹی تھی اہم ہے۔ ووہان میں گذشتہ روز ایک ماہ کے بعد ایک معمر شخص میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہےجس کے بعد حکام نے اس کے رہائشی علاقے کو سیل کر دیا ہے اور اس سے رابطے میں آنے والے افراد کو آئسو لیٹ کیا جارہا ہے۔ جبکہ یہ وائرس اب چین کے دوسرے حصوں میں دوبارہ سے سر اٹھا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایک اور چینی شہر سوہلان میں لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا ہے۔

دوسری جانب ساؤتھ کوریا کا معاملہ ہے جسے کرونا کی وبا پر جامع طریقے سے بر وقت سخت اقدامات اٹھا کر قابو پانے کے حوالے سے کریڈٹ دیا جاتا رہا ہے۔ ساؤتھ کوریا کے حکام نے پانچ روز قبل لاک ڈاؤن شرائط میں نرمی کرتے ہوئے تھیٹر، سینما ، کلبز وغیرہ کھول دیئے تھے تاہم وہاں مشروط طور پر آنے جانے کی اجازت تھی۔ ساؤتھ کوریا کے طبی ماہرین اس فیصلے کے نتائج پر خدشات کا اظہار کر رہے تھے اور وہی ہوا کہ کوریا میں کرونا وائرس کے متاثرین کے کلسٹر کے سامنے آنے کا انکشاف ہوا ہے اور جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول کے میئر کے مطابق اب تک چالیس نئے کیسز منظر عام پر آچکے ہیں اور انکو کلبز میں سماجی فاصلہ نہ  اختیار کرنے اور حکومتی ہدایات کو نظر انداز کرنے کے باعث وائرس پھیلا۔

تیسری مثال جرمنی کی ہے جسے یورپ میں ایسے ملک کے طور پر دیکھا جا رہا تھا جس نے اس وبا کو بہترین انداز میں قابو کرتے ہوئے اس کے نقصان کو کم کردیا تھا۔ جرمنی میں اموات دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں کئی گنا کم ہے۔ اٹلی، برطانیہ، فرانس اور سپین جہاں کرونا وائرس نے قیامت ڈھائی اور بڑی تعداد میں لوگ کرونا وائرس کی وجہ سے اپنی جانوں سے گئے وہیں جرمنی میں کرونا وائرس کے اب تک ایک لاکھ ستر ہزار کے قریب کیسز تو ہیں تاہم ابھی تک صرف ساڑھے سات ہزار اموات ہوئیں ہیں۔ 

جرمنی کی حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان کیا گیا تو اسکے بعد اچانک کرونا وائرس کے کیسز بڑھنے کی شرح میں خطرناک اضافہ دیکھا گیا ہے۔ جہاں ری پروڈکشن ریٹ 1 سے اوپر ہے جس کا مطلب ہے کہ وبا کے پھیلاؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ماہرین نے اس پیش رفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو لاک ڈاؤن کھولنے کے شوقین ہیں انہیں حوصلہ کرتے ہوئے ان کیسز کو دیکھنا چاہئے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں اس وقت لاک ڈاؤن کھولنا تباہی کا نسخہ ہے۔ تاہم اس وقت عملی طور پر لاک ڈاؤن پاکستان میں ختم کردیا گیا ہے۔ جس کے بعد ایک روز میں کیسز کی ریکارڈ تعداد سامنے آرہی ہے۔