امید کی کرن: چین کے بعد جنوبی کوریا بھی کرونا وائرس پر قابو پانے میں کامیاب

امید کی کرن: چین کے بعد جنوبی کوریا بھی کرونا وائرس پر قابو پانے میں کامیاب
کرونا وائرس اس وقت یورپی ممالک، امریکہ اور کچھ ایشیائی ممالک میں تیزی سے پھیل رہا ہے تاہم حیران کن طور پر جنوبی کوریا جیسے ملک سے گذشتہ 2 ہفتوں سے نئے کیسز سامنے آنے کی رفتار کم ہو چکی ہے۔ جنوبی کوریا کا شمار چین کے بعد اس ملک میں کیا جا رہا تھا جہاں تیزی سے کرونا وائرس پھیل رہا تھا اور چین کے بعد ہی وہاں کرونا کیسز تیزی سے آنا شروع ہوئے تھے۔

فروری کے اختتام اور مارچ کے آغاز تک جنوبی کوریا سے کرونا کیسز سامنے آنے کی رفتار سب سے زیادہ تھی اور چین کے بعد جنوبی کوریا ہی سب سے زیادہ متاثرہ ملک تھا لیکن بعد میں ایران سامنے آیا اور وہاں تیزی سے نئے کیس سامنے آنے لگے۔ مارچ کے پہلے ہفتے تک جنوبی کوریا کرونا کیسز کے تیزی سے بڑھنے کے حوالے سے چین سے دوسرے نمبر پر تھا مگر مارچ کے دوسرے ہفتے کے آغاز میں ہی صورتحال تبدیل ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے جنوبی کوریا سے نئے کیسز کے آنے کی رفتار کئی ممالک سے سست ہونے لگی۔ اور یوں محض کچھ ہی ہفتوں میں جنوبی کوریا نے اپنے ملک میں وبا کے تیزی سے پھیلنے پر قابو پالیا اور اب 17 مارچ کے دن جنوبی کوریا سے مجموعی طور پر 50 سے بھی کم نئے کیسز سامنے آئے تھے، اس سے قبل فروری کے اختتام تک وہاں سے یومیہ 700 سے 900 کیسز سامنے آ رہے تھے۔

خیال کیا جا رہا تھا کہ چین اور کسی بھی دوسرے ملک کو کرونا وائرس کی وبا پر قابو پانے میں بہت سارا وقت لگے گا مگر جنوبی کوریا نے چین سے بھی کم وقت میں وائرس پر قابو پا کر تمام اندازوں کو غلط ثابت کیا۔ اگرچہ اب بھی یہ کہنا مشکل ہے کہ جنوبی کوریا میں کرونا کی شدت کم ہو گئی تاہم اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ وہاں سے کیسز کے سامنے آنے کی رفتار کافی کم ہوگئی ہے۔

طبی تحقیقاتی جریدے سائنس میگ نے جنوبی کوریا میں کرونا کیسز کی کمی پر ایک تحقیقاتی مضمون شائع کیا، جس میں ان چند اقدامات کا ذکر کیا گیا جنہیں اختیار کر کے جنوبی کوریا نے وبا پر قابو پایا۔ مضمون میں بتایا گیا کہ جنوبی کوریا نے دیگر کئی ممالک کی طرح بڑے پیمانے پر لاک ڈون بھی نہیں کیا اور نہ ہی تمام شہریوں کو گھروں میں بند کیا لیکن اس کے باوجود حکومت کرونا جیسی وبا پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئی۔

رپورٹ میں جنوبی کوریائی حکومت کے عہدیداروں اور وبائی امراض کے ماہرین سمیت ٹیکنالوجی ماہرین کے حوالے دیتے ہوئے بتایا کہ جنوبی کوریا نے وبا سے نمٹنے کے لیے اس وقت ہی تیاریاں شروع کر دی تھیں جب مذکورہ وائرس صرف چین تک محدود تھا۔ جنوبی کورین حکام کے مطابق چین میں تیزی سے وبا کے پھیلنے کے بعد وہاں کی فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے حکومت کے ساتھ مل کر کرونا وائرس کا ٹیسٹ کرنے والی کٹ کی تیاری شروع کر دی تھی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ جنوبی کورین ماہرین نے چینی ماہرین کی جانب سے کرونا وائرس کے حوالے سے شائع کی جانے والی معلومات اور تحقیقات کا تجزیہ کر کے نہ صرف کم وقت میں معیاری کٹس کی تیاری کر لی بلکہ انہوں نے دیگر انتظامات کے حوالے سے بھی منصوبہ بندی کرنا شروع کر دی۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق بظاہر جنوبی کورین حکومت نے کرونا وائرس کی کٹ تیار کرنے، قرنطینہ کا بہترین نظام بنانے اور ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے عالمی وبا کو پھیلنے سے روکا۔

حکام نے بتایا کہ لاک ڈاون کرنا یا لوگوں کو گھروں تک محدود کرنا مسئلے کا حل نہیں تھا اس لیے حکومت نے کم وسائل اور کٹ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ افراد کے ٹیسٹ کرنے کو یقینی بنانے سمیت قرنطینہ کے نظام کو بہتر بنایا اور قرنطینہ میں ہر اس شخص کو بند کر دیا گیا جس کی صحت کے حوالے سے تھوڑا سا بھی شبہ تھا۔

اسی حوالے سے عرب نشریاتی ادارے الجزیرہ نےبتایا کہ جنوبی کورین حکام کے مطابق اس بات کو بھی جدید ٹیکنالوجی اور ایپس کی مدد سے یقینی بنایا گیا کہ شہریوں کو موبائل فون پر پیغامات بھیجے جائیں کہ فلاں فلاں علاقوں میں جانے سے گریز کیا جائے۔ حکام نے بتایا کہ حکومت نے جنوبی کوریا کے ہر فون پر حفاظتی پیغامات بھیجے اور لوگوں کو ہدایات دیں کہ وہ کن علاقوں میں جانے سے گریز کریں اور وہ اپنی حفاظت کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔

خیال رہے کہ 19 مارچ کی سہ پہر تک جنوبی کوریا میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 8 ہزار 565 تک جا پہنچی تھی اور وہ اٹلی، ایران، اسپین، فرانس، جرمنی اور امریکہ کے بعد زیادہ مریضوں والا ملک تھا۔ اس سے قبل مارچ کے آغاز تک جنوبی کوریا چین کے بعد سے زیادہ مریضوں والا ملک تھا، تاہم گذشتہ 2 ہفتوں سے وہاں سے سامنے آنے والے کیسز کی تعداد انتہائی کم ہے۔