سب سے پہلے تو آپ کو دوبارہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا وزیرِ اعظم بننے پر بہت بہت بدھائی ہو۔ امید کرتا ہوں کہ آپ کا یہ دور بطور وزیرِاعظم اچھا گزرے گا۔ مودی جی، میں ایک عام پاکستانی ہوں، جس نے بچپن میں یہ سنا اور سکول کی کتابوں میں پڑھا کہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے۔ بالکل اس طرح سے جیسے ایک عام ہندوستانی کو یہ بتایا اور پڑھایا گیا کہ ہندوستان کا ازلی دشمن پاکستان ہے۔ نفرت کے یہ بوئے ہوئے بیج آج تناور درخت بن چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہندوستان اور پاکستان کو علیحدہ ہوئے دہائیاں بیت گئی ہیں مگر یہ نفرت بجائے کم ہونے کے بڑھ ہی رہی ہے۔ جس کا عملی مظاہرہ آپ کے الیکشن سے کچھ عرصہ قبل پوری دنیا دیکھ چکی ہے۔
مودی جی، بجائے اس کے کہ ہم تاریخ کے اوراق کو کھنگالیں کہ پاکستان اور ہندوستان کیوں علیحدہ ہوئے اور ان کو الگ ہونا چاہیے تھا کہ نہیں، ہمیں ایک دوسرے کی حقیقت کودل سے تسلیم کر لینا چاہیے اور آگے کی طرف دیکھنا چاہیے۔ کیونکہ ہم نے جنگیں بھی کر کے دیکھ لیں جن میں کبھی آپ کی طرف سے مہم جوئی کی گئی اور کبھی ہماری طرف سے مگر ماسوائے تباہی اور بربادی کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ دونوں ملک اب کسی بھی قسم کی مہم جوئی کے متحمل نہیں ہو سکتے کیونکہ دونوں ایٹمی طاقت ہیں۔
مودی جی، آپ نے اپنی الیکشن مہم میں جو پاکستان سے نفرت کا کارڈ کھیلا اور جو جنگ کا ماحول بنایا اس کے نتیجے میں آپ الیکشن جیت گئے ہیں اور دوبارہ وزیرِاعظم بھی بن گئے ہیں۔ جس کی مبارکباد آپ کو ہمارے وزیرِاعظم عمران خان صاحب کی طرف سے بھی دی گئی اور ان کی طرف سے آپ کو تین خط بھی لکھے گئے ہیں جن میں آپ کو تمام معاملات کو مذاکرات سے حل کرنے کے لئے تعاون کی یقین دہانی کروائی گئی۔ آپ سے التماس ہے کہ اس کا مثبت جواب دیں۔
کیونکہ ایک عام پاکستانی ہونے کے ناطے میری یہ خواہش ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان امن قائم ہو اور دونوں طرف بجٹ کا سب سے بڑا حصّہ جو دفاع پر خرچ کیا جاتا ہے وہ لوگوں کی تعلیم، صحت، روزگار اور غربت کم کرنے پر لگایا جائے۔ جس سے ان کی زندگیوں میں بہتری آئے۔ میری خواہش ہے کہ دونوں ملکوں کہ درمیان ویزہ پالیسی نرم ہو، اور میرے جیسا عام پاکستانی وہاں اجمیر شریف میں خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پر حاضری دے سکے، دِلّی کی گلیوں میں گھوم سکے، ممبئی میں عامر خان اور دیپیکا پڈوکون سے مل سکے، اپنے فیورٹ کرکٹر ویرات کوہلی کا ایک آٹو گراف لے سکے، گلزار صاحب سے کچھ گیان حاصل کر سکے، جے پور اور پورے راجستھان کی ثقافت کو قریب سے دیکھ سکے۔ تاج محل جو دنیا کا ایک عجوبہ ہے وہاں کچھ وقت گزار سکے۔
مودی جی، اسی طرح ایک عام ہندوستانی یہاں لاہور میں آ کر فوڈ سٹریٹ اور باقی تمام مشہور سوغات کا مزا لے سکے۔ مستنصر حسین تارڑ سے ان کے سفر نامے سن سکے۔ شمالی علاقہ جات کی خوب صورتی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے چین کے بارڈر تک جا سکے۔ لعل شہباز قلندر کے مزار پر جا کر دھمال ڈال سکے۔ محمد عامر کا آٹو گراف لے سکے اور ماہرہ خان سے ملاقات کر سکے۔ پاکستان میں اسے جو بھی اچھا لگے وہ کر سکے۔
میری یہ بھی خواہش ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کرکٹ بحال ہو جائے۔ کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جو دونوں طرف لوگوں کو آپس میں ایک کر دیتا ہے۔ اور میچ اگر پاکستان اور ہندوستان کا ہو تو ایسا لگتا ہے جیسے پوری دنیا ہی اکٹھی ہو گئی ہو۔ جس کی مثال حال ہی میں پاکستان اور ہندوستان کا ورلڈکپ کا میچ ہے۔ جسے ایک ارب سے زائد انسانوں نے دیکھا۔ کتنا ہی اچھا لگے اگر ہندوستان کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آئے اور لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں محمد عامر، ویرات کوہلی کو باؤلنگ کروا رہا ہو۔ اور میرے جیسا عام پاکستانی وہاں میچ سے لطف اندوز ہو رہا ہو۔ اسی طرح ممبئی کے وانکھنڈے سٹیڈیم میں جسپریت بُمرا، بابر اعظم کو باؤلنگ کروا رہا ہو اور وہاں پر عام ہندوستانی اس سے محظوظ ہو رہے ہوں۔
اسی طرح آپ کی فلمیں اگر ہم سے بہتر ہیں تو ہمارے ڈرامے آپ سے بہتر ہیں تو اگر دونوں ملکوں کے فنکاروں کا آپس میں تبادلہ ہو جائے اور وہ مل کر کام کریں تو کتنا ہی اچھا ہو۔ یہی اگر موسیقی اور دیگر فنونِ لطیفہ میں ہو جائے تو کمال کا کام تخلیق ہو۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے بڑھنے سے معیشت کو استحکام ملے گا اور دونوں طرف خوشحالی ہوگی۔
مودی جی، ایک عام پاکستانی ہونے کی حیثیت سے میری یہ خواہش ہے کہ ہم اپنے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے آگے بڑھیں اور امن کو ایک موقع دیں کیونکہ لڑ تو ہم رہے ہی ہیں اتنے سالوں سے اور حاصل کچھ نہیں ہوا سوائے نقصان کے۔ اور اگر آگے بھی اسی طرح کوئی مہم جوئی ہوئی تو بہت ہولناک تباہی ہوگی۔ جس کے لئے ہماری آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ اس لئے اگر ہمارے پاس کوئی راستہ ہے تو وہ صرف امن اور بات چیت کا ہی راستہ ہے۔ قدرت نے آپ کو ایک اور موقع دیا ہے اس لئے ہٹ دھرمی چھوڑ کر ہماری اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کے لئے اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور امن کا یہ راستہ اپنا لیں۔ کیونکہ میری طرح ایک عام ہندوستانی کے بھی یہی وچار ہیں۔
منجانب
ایک عام پاکستانی
مصنف جامعہ پنجاب سے ابلاغیات میں ماسٹرز کر چکے ہیں، سیکولرازم کے حامی اور سیاست، ادب اور موسیقی سے شغف رکھتے ہیں۔