میرے نوجوان وزیر اعظم، دوپہر کے بعد کا وقت شروع ہو چکا

میرے نوجوان وزیر اعظم، دوپہر کے بعد کا وقت شروع ہو چکا
ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان کے دور اقتدار کا دوپہر کے بعد کا وقت شروع ہو گیا۔ آصف علی زرداری کی یہ پیشن گوئی سچ ثابت ہونے جا رہی ہے کہ عمران خان کی حکومت گرانے کی کسی کو ضرورت نہیں، بلکہ یہ خود ہی گرے گی۔ 10 ماہ کی حکومتی کارکردگی دیکھی جائے تو اپوزیشن کو گالیاں دینے، عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیسنے، ملک پر قرضوں کا بوجھ لادنے اور غیر منتخب لوگوں کو وزیر، مشیر بنانے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔

اپوزیشن کے وقت عمران خان کہا کرتے تھے کہ اگر ملک میں مہنگائی بڑھ جائے، ڈالر کا ریٹ اوپر چلا جائے تو سمجھ لینا کہ وزیراعظم چور ہے۔ عمران خان کے جھوٹ اور فریب کا پول اب پوری طرح کھل چکا ہے، عوام بھی سمجھ چکے ہیں کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ وہ معصوم یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ جب عمران خان وزیراعظم بنے گا تو ملک میں شہد اور دودھ کی نہریں بہیں گی، یہ سب خواب اب چکنا چور ہو چکے ہیں۔



میرے ایک دوست ماسٹر حسن اختر کی بات آج بہت یاد آ رہی ہے۔ ایک دفعہ گفتگو کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ "سکول ٹیچنگ کے دوران میں نے اکثر دیکھا ہے کہ نالائق اور کام چور لڑکے پڑھائی سے جان چھڑانے کے لئے سپورٹس میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں، سپورٹس مین کا ذہن جسمانی ورزش اور کھیل کے داؤد پیچ سیکھنے کی طرف لگا رہتا ہے۔ جسمانی ورزش کے باعث زور آزمائی میں ایسے لڑکوں کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ کھلاڑی کی تربیت ہی اس نہج پر کی جاتی ہے۔ اسے کیا معلوم کہ سیاست کیا چیز ہے، اور ملک کس طرح چلائے جاتے ہیں، سیاست تو بہت ہی ذہین لوگوں کا کام ہے"۔

آج سب کو معلوم ہو چکا ہے کہ عمران خان کی 10 ماہ کی وزارت عظمیٰ نے ’’نہیں چھوڑوں گا، اندر کر دوں گا، زرداری ڈاکو ہے، نواز شریف چور ہے، ملک کو لوٹ گئے ہیں، کھا گئے ہیں‘‘ کے سوا اس قوم کو دیا ہی کیا ہے!

عمران خان نے جب حکومت سنبھالی تھی تو پہلا کام وہی کرتا جو ذہین لوگ کرتے ہیں، یعنی "امن وامان قائم کرنا"۔ کسی بھی حکومت کے لئے ملک میں پھیلی افراتفری سب سے بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے اس دوران ملک میں امن و امان قائم کرنے کی بجائے اپوزیشن کو رگیدنا، انہیں للکارنا، اور نیب کے ذریعے ذلیل کرنا شروع کر رکھا ہے۔

کیا کوئی شخص وزیراعظم ہوتے ہوئے ملک میں ٹینشن خود پیدا کرے گا؟ ایک وزیراعظم، 50 وزیر، مشیر لاکھ دو لاکھ پولیس اور مقابلہ 22 کروڑ عوام سے، یہ کیسے ممکن ہے؟ بپھری ہوئی عوام کے سامنے پولیس کی کیا حیثیت ہے؟ میرے وزیراعظم, اس طرح تو کوئی ڈکٹیٹر بھی نہیں کرتا تھا۔



میاں نواز شریف اس وقت جیل میں ہیں، انہوں نے اپنے کارکنوں کو یہ پیغام بھیجا ہے کہ عمران خان کی حکومت کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ بالکل درست کہا ہے۔ اس میں کوئی زیادہ ذہن خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک عام عقل و شعور رکھنے والا شخص بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے، کہ عمران خان خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں، معیشت کا بیڑا غرق کرنے کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کو پاؤں پر کھڑا ہونے کا موقع دے رہے ہیں۔ عمران خان وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالے 10 ماہ گزرنے پر بھی یہ محسوس کر رہے ہیں کہ وہ کسی کھیل کے میدان میں کھڑے ہیں اور مخالف کو یہ کہہ رہے ہیں ’’نہیں چھوڑوں گا، مار دوں گا، ہرا دوں گا‘‘۔

ایسا وزیراعظم تو کیا کوئی ڈکٹیٹر بھی پاکستان کی 72 سالہ تاریخ میں کسی نے نہ دیکھا ہو گا، جو عوام کو چیخیں نکلنے کی نوید سناتا ہو، جو مذہب پر بھاشن دیتا ہو، جو ریاست مدینہ کا تصور دے کر مخالفین کو جیلوں میں ڈالے، مگر اپنے اردگرد کرپٹ لوگوں کو بٹھائے، ان کے کیس دبا لے، جسے یہ نہیں معلوم کے جیل تو اپوزیشن کے مردہ جسم میں روح پھونکتی ہے۔



کیا کیا جائے ایسے حکمران کا جو یوٹرن کا علمبردار ہو، اپوزیشن میں جو کہتا تھا، اب صرف دس ماہ بعد ہی اسے وہ باتیں بہت بری لگتی ہوں، عوامی احتجاج کی مخالفت کرتا ہو، اور کہتا ہو کہ اس سے ملک کی ترقی رک جاتی ہے جہاں احتجاج ہو رہے ہوں؟

جب اپوزیشن میں تھے تو کہتے تھے اسلام آباد بند کردوں گا، لاہور بند کردوں گا، کراچی بند کردوں گا، اور پورا پاکستان بند کر دوں گا۔ عوام کو سول نافرمانی پر اکساتا تھا، بجلی و گیس کے بل جلاتا تھا، اور لوگوں کو ٹیکس نہ دینے کا کہتا تھا۔ مگر جسمانی لحاظ سے میرے وزیراعظم کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ دیکھنے میں اب بھی 18 سال کا خوبرو نوجوان لگتا ہے۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔