گدھوں کی تعداد میں اضافہ خوش آئند ہے

گدھوں کی تعداد میں اضافہ خوش آئند ہے
تو جناب اس میں گھبرانے یا مذاق یا کھلی اڑانے کی بھلا کیا بات ہے کہ پاکستان میں گدھوں کی تعداد میں ایک لاکھ اضافہ ہوا اور ان کی  آبادی نصف کروڑ کے آس پاس ہوگئی ہے۔ یہ بے چارہ معصوم سا جانور، یقینی طور پر ارض وطن کی ایسی مخلوق  ہے، جو سب سے زیادہ محنتی، جفاکش اور خاموش طبع ہے۔

معصوم اور سیدھا ساداجس پر جتنا بوجھ لاد دیا جائے تو ’چوں یا اْف ‘ بھی جو کرتا ہو؟  اور پاکستانی تو ٹھہرے کچھ زیادہ ہی’پیسا وصولی‘  کے قائل۔ جواس کے  ایک با ر مالک بن جائیں  تو گدھے میاں کے گدھے ہونے پر اسے خوب شرمندہ کرا بیٹھتے ہیں۔  یقین نہ آئے تو کبھی کسی  سڑک پر گدھا گاڑی کا ہی نظارہ کرلیجئے گا‘   جس پر کچرے سے لے کر تیل کے بڑے بڑے ڈرم تک ڈھوئے جارہے ہوتے ہیں۔ جسے لاچار اور بے بس گدھا  چپ چاپ زمین میں گردن کیے کھینچ کر قدم بس آگے ہی آگے بڑھا رہا ہوتا ہے۔ کبھی کبھار تو اس غریب پر اتنا وزن ڈال دیا جاتا ہے کہ گاڑی زمین پر اور  گدھا ہوا میں ہوتا ہے۔

لیکن پھر بھی آپ سے بحث نہیں کرے گا۔ ہاں اگر اس کا میٹر گھوم جائے  تو سر را ہ ٹس سے مس نہیں ہوگا‘ چاہے کتنا زور لگا لیں۔ جس پر مالک اْسی کی طرح دولتیاں مار کر پھر سے اسے چلنے پر مجبور کردیتا ہے۔ اسی تناظر میں اسے ’سخت جان‘ کہا جاسکتا ہے جو بھوکا پیاسا رہ کر بھی اپنے  مالک کو کبھی مایوس نہیں کرتا۔ اس کی اسی معصومیت، فرماں برداری اور بھولپن پر اِس کا تو نہیں البتہ انسانوں کا مذاق ’گدھا ہے وہ تو‘ کہہ کر اڑایا جاتا ہے۔ جبکہ کچھ تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو خود کو اس سے تعبیر کرتے ہوئے ’گدھوں کی طرح کام‘ کا پہاڑا پڑھتے ہیں جن کو شکوہ ہوتا ہے کہ  صلے میں ملتا ملاتا کچھ بھی نہیں۔

ہمارے یہاں اس محنتی جانور کو کوئی ’خچر‘ کہہ کر پکارتا ہے تو کوئی ’خر‘ یا‘خچر‘  خیر ’کھوتا‘ تو پنجاب میں ا س کا ’نک نیم‘ ہے۔ جو اِسے اور دوسروں پر اپنا غصہ نکالتے وقت استعمال کیا جاتا ہے۔ خیر جو بہت ہی سڑا ہوا‘ خود سر اور ضدی ہو تو اسے بھی گدھے سے جوڑ کر ’خر دماغ‘ کا اعزاز دے دیا جاتا ہے۔ اب بتائیں اگر گدھا ’دماغ‘ والا ہوتا  تو دولتی مار کر مالک کو پوچھ لیتا کہ اتنا بوجھ لادتے ہو اور دیتے کیا ہو؟

وہی گنتی کی گھانس پھونس۔ حالیہ دنوں میں جب لاہورسمیت پنجاب کے کئی شہروں میں گدھے کا گوشت فروخت ہونے کا انکشاف ہوا تو کراچی والوں نے اس کو لے کر خوب شغل میلہ لگایا، سوشل میڈیا پر تو طنز و مزاح سے بھری پوسٹ کی سمجھیں بہار آگئی۔ دیکھا جائے تو یہ کتنی بڑی زیادتی ہے کہ بچوں کو گھوڑے، گائے اور بکری پر تو مضمون لکھنے کو دیا جاتا لیکن کبھی بھی ’ گدھے کی خصوصیات اور اس کی ثابت قدمی، محنت مشقت‘ کو تعریف و توصیف سجی تحریروں پر نہیں۔

اردو لغت کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ و ہ اس گدھے کی قدر دان تو ہے لیکن محاوروں میں بھی چبھتا ہوا طنز ہے۔ جیسے گدھا گھوڑے ایک بھاؤ، گدھا برسات میں بھوکا مرے، گدھا مرے کمہار کا دھوبن ستی ہو وغیرہ شامل ہیں۔اسی طرح ’ گدھے کو باپ بنانا‘ کا

عملی مظاہرہ ہم سیاسی افق اور نجی زندگیوں میں دیکھتے ہی رہتے ہیں۔ وہیں ’ گدھے پر کتابیں لادنا‘کے مترادف کئی شخصیات سے ہمارا واسطہ پڑتا ہی رہتا ہے۔ اور پھر جناب ’ گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب‘ ہونے کا عملی مظاہرہ تو ہمارے عوامی نمائندے اْس وقت کردکھاتے ہیں‘ جب وہ ووٹ لے کر حلقوں سے اڑ ن چھو ہوتے ہیں اور ان کے دیدار کو ترستے عوام کی اپنی آنکھوں میں حلقے پڑنا شروع ہوجاتے ہیں۔ پھر اسی طرح کسی کا گدھا لاپتا ہوجائے تو اس کو ڈھونڈنے کے لیے بھی ’گدھا‘ کی بننا پڑتا ہے۔

خیر جناب گدھے کی سو برائیاں کرنے والے نجانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ سابق امریکی صدر براک اوبامہ کی ’ڈیموکریٹک پارٹی‘ کا انتخابی نشان بھی یہ معصوم جانور ہی ہے۔ جس سے  رنگیلا صاحب اس قدر متاثر ہوئے تھے  کہ انہوں نے ’انسان اور گدھا‘ جیسی فلم بنا کر اشرف المخلوقات اور گدھے میاں کے احساسات اور جذبات کو خوبصورت انداز میں بیان کیا۔ تو بس یہ سمجھیں کہ کوئی اسے ’گدھا‘ سمجھتا ہے تو سمجھتا رہے لیکن یہ  واقعی ’ڈونکی راجا‘ ہی ہے۔ جو انتہائی کارآمد ہے اور ہمیں تو خوش ہونا چاہیے کہ گدھو ں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ ذرا یہ بھی تو سوچیں کہ کام کرنے والے کتنے اور زیادہ بڑھ رہے ہیں۔