بڑھتی ہوئی مہنگائی اور مرشد کے مشورے

راولپنڈی کے بزرگ بیان کرتے ہیں کہ کل کا پورا دن دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی میں گزارا۔ اندرون شہر کی تمام سڑکیں چھان ماریں۔ بقول شخصے، سارا دن ”کتے بھونکاندا“ رہا۔ عشائیے کے بعد جب دوستوں کو ان کی زوجاؤں کی مغلظات پر مبنی کالیں آنے لگیں تو وہ شریف چھنے کاکے بن کر رخصت ہو گئے۔

ہماری بیگم چونکہ بمعہ بچوں کے ایک شادی میں شرکت کے لیے اپنے میکہ شریف تشریف لے کر گئی ہوئی ہیں تو ہم آزاد ہی تھے۔ چنانچہ دوستوں کی رخصتی کے بعد کچھ وقت Netflix پر لہو و لعب کے دیدار میں گزارا۔ اسی دیدار کے دوران آنکھ لگ گئی جن حسیناؤں کو موبائل پر دیکھ رہا تھا، وہی خواب میں وارد ہوئیں۔ ان کے ساتھ چہلوں میں مصروف ہو گیا، ایک طرحہ دار حسینہ کا جھکاؤ ہماری طرف کچھ زیادہ ہی ہو رہا تھا۔ دل میں مصمم ارادہ کیا کہ آئندہ ایسے ہی خواب دیکھنے ہیں اور خواب میں انہی علاقوں میں رہنا ہے تاکہ ایسی حسینائیں ملتی رہیں۔ دل کے کسی گوشے میں ہم اس وقت خود کو مستنصر حسین تارڑ تصور کر رہے تھے۔

طرحہ دار حسینہ کا جھکاؤ ہماری طرف بڑھتا ہی جا رہا تھا، ہم بھی اس کی طرف کچھ جھکے، وہ کچھ اور جھکی، ہم بھی کچھ اور جھکے، سانسوں سے سانسیں ٹکرائیں، قریب ہی تھا کہ ہمارے سر بھی ٹکرا جاتے، اچانک ایک جھماکا ہوا، چاروں طرف جیسے دودھیا سی روشنی پھیل گئی، ایک گونج دار آواز سنائی دی، ”بدبخت، خواب میں بھی ایسی حرکت اکیلے نہیں کرتے۔“ سٹپٹا کر دیکھا تو مرشد تھے۔ انہوں نے ہاتھ  کے اشارے سے تمام حسیناؤں کو ہمارے گرد سے ہٹایا اور ان کے ساتھ جا کر کھڑے ہو گئے۔ ہم ہونق بنے ان کی طرف دیکھ ہی رہے تھے کہ حکم صادر کیا، حالات بہت نازک ہیں، تم فوری طور پر ہمارے سخن گو زائف کی خدمت میں حاضری دو۔ عرض کی، حضرت، وہاں تو بہت ذلالت ہو گی۔ بولے، تم اہم ہو، یہ تمہارا وہم ہے، اور اسی وہم کے علاج کے لیے تمہیں ان کے پاس بھیج رہا ہوں۔ فقر کی راہ پر چلنا ہے تو ذلالت برداشت کرنا سیکھو۔ عرض کی، میرا تو فقر والا کوئی ارادہ نہیں، بولے، یہ تمہاری چوائس نہیں ہے، ڈالر جہاں پہنچ گیا ہے، اب پوری قوم ہی فقر کی راہ پر ہے۔



عرض کی کہ طبیعت کچھ ناساز ہے، دوا بھی نہیں کھائی کہ دوا خریدنے کے پیسے نہیں ہیں۔ حکم ہوا کہ فوری طور پر ہمارے ٹائیگر نیازی کے پاس جاؤ اور اس سے دوائی لے لو۔ اس نے مارکیٹ سے سارا سٹاک اٹھوا کر اپنے پاس رکھا ہے۔ عرض کی، حضور! میں نشہ نہیں کرتا۔ مرشد مسکرا کر بولے، نہیں، اصل ادویات ہیں۔ اور دوا کے لیے پیسے تک نہ ہونا بھی فقر پر دلالت کرتا ہے۔ مبارک ہو، تم اور باقی عوام میں بہت تیزی سے تبدیلی آتی جا رہی ہے۔ پوری قوم روحانیت کے مدارج تیزی سے طے کر رہی ہے۔

عرض کی کہ حضور گیس کے بل بہت زیادہ آ رہے ہیں، اس کا کوئی حل عنائیت کیجیے۔ مرشد نے فوری طور پر اپنے چوغے سے ایک مولی نکال کر ہمیں دے دی اور حکم دیا، جب بھوک لگے اسے کھا لو، یہ کبھی ختم نہیں ہو گی۔ اس کے دو فائدے ہوں گے، ایک تو فاقہ کشی نہیں کرنا پڑے گی اور دوسرا گیس کا بل بھی کم آئے گا۔

شکر ہے پیاس کی شکایت نہیں کی، ورنہ شاید مرشد تربوز دے دیتے۔ مزید کچھ عرض کرنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ مرشد نے جلالی انداز میں فرمایا، جاتے ہو کہ نہیں۔ تم کب سے ہماری پرائیوسی میں دخل اندازی کر رہے ہو، ”تخلیہ“۔ مرشد کی جلالی کیفیت دیکھ کر ہمارا رنگ فق ہو گیا لیکن جرمِ ضعیفی، مرگ مفاجات۔ اس دوران مرشد ہمارری الماری کھول کر اس میں سے ایک ریزر نکال کر چیک کر رہے تھے، کہنے لگے، اس سے داڑھی اچھی منڈھے گی۔ ہم نے کچھ عرض کرنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ ایک دم مرشد نے پوچھا، اور سناؤ تمہاری ماہن کا کیا حال ہے؟



ماہن؟ ہم نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے سوالیہ لہجے میں استفسار کیا۔


مرشد کے لبوں پر ایک مشفقانہ مسکراہٹ نمودار ہوئی اور نرم سے لہجے میں بولے، ”تمہاری ماں اور بہن، ایک کر کے حال پوچھ رہا ہوں۔“


ہم شدید غصے کی حالت میں مرشد کو یہ بتائے بغیر باہر نکل آئے کہ یہ ریزر کبھی بھی چہرے کی شیو کے لیے استعمال نہیں ہوا۔


مرشد کے ٹائیگر کے پاس پہنچے، مرشد کا اسم سنتے ہی ٹائیگر گویا ہمارے قدموں میں لوٹنیاں لینے لگا، تب ہمیں مرشد کی قوت سمجھ آئی کہ ٹائیگر کو بھی کیسے ٹریننگ دی ہوئی ہے۔ ایک دم دل میں ہول اٹھا کہ ان مرشد کے بعد تو اماوس کی رات ہی مقدر ہو گی۔ لیکن پھر دل کو تسلی دی کہ مرشد تو مرشد ہوتے ہیں اور ہمیشہ مرشد ”موجودہ“ ہی ہوتے ہیں۔ پتہ نہیں وحدت الشہود یا وحدت الوجود کا عقدہ وا ہو گیا۔ سوچا، اگلے مرشد کی خدمت میں یہ عرض داشت پیش کریں گے۔

مرے جرم عشق کی اس قدر مجھے اے ندیم سزا نہ دے
مرے دل پہ اتنی جفا نہ کر مجھے یوں نظر سے گرا نہ دے


طبعاً ہم بھی ہارون الرشید ہوتے جا رہے ہیں۔ اگلے وقتوں میں ایسے لوگ ”خلیفے“ ہوتے تھے۔ انہی سوچوں میں غرق تھے کہ مرشد کی صدا آئی، ابھی تک پہنچے نہیں ہو؟ عرض کی کہ بس ان کی دست بوسی کو قدم رنجہ فرمانے ہی والے ہیں۔ مرشد، فرمانے لگے، بہت زیادہ وقت لگاتے ہو۔ خوشی سے سرشار ہو کر عرض کی، ”شکریہ مرشد“۔ مرشد غضب ناک ہو کر چنگاڑنے لگے، بدبخت ہمارا مذاق اڑاتے ہو، ابھی تمام طاقتیں سلب کیے لیتے ہیں۔ بہت ہی مشکل سے جاں بخشی کروائی، سخن گو کے پاس پہنچا تو موصوف حقیقی و مجازی دنیا میں بیک وقت مشغول دروغ گوئی تھے۔ ساتھ ساتھ ٹی وی پر خبریں بھی دیکھ رہے تھے۔

ساری خبریں گویا ایسی تھیں کہ ان پر تبصرہ کرنا ہی بے کار ہے۔ یہ بات سنتے ہی سخن گو نے ہماری طرف توجہ کی اور بولے، اوہ بدبخت، احاطۂ گروۂ روابط عمومی میں راست گوئی ممنوع ہے۔ عرض کی اے زائف اعظم! یہ راست گوئی نہیں ہے بلکہ ایک محاورہ ہے۔ بولے، اچھا اچھا، جیسے ہم نے اپنی عوام کے ساتھ bondage والا محاورہ ایجاد کیا تھا۔ عرض کی کہ وہ ایجاد نہ تھی سچ تھا کہ سبب جس کے رخِ زائف پہ سپیدی کا اثر بھی کچھ عرصہ رہا تھا۔ 



اسی اثناء میں اچانک خبر چلنے لگی کہ سمندر سے تیل دھونڈنے والی مہم ناکامی کا شکار ہو گئی ہے۔ سخن گو نے فوری طور پر ایک آلہ نکالا اور تمام ملک میں یہ پیغام نشر کر دیا، ”تیل نہ نکلنے کے سبب اب عوام کو مزید تکلیف برداشت کرنا ہو گی“۔