ترین ہم خیال گروپ کا پنجاب کے بعد اب خیبرپختونخوا میں بھی دخول۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پی ٹی آئی میں جہانگیر ترین ہم خیال گروپ نے پنجاب کے بعد اب خیبر پختونخوا میں بھی انٹری دے دی ہے۔ خیبر پختونخوا کے ارکان قومی اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ہم خیال گروپ کے قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر راجا ریاض کو ٹاسک سونپا گیا ہے۔
اس حوالے سے راجا ریاض کے حوالے سے ایکسپریس ڈاٹ پی کے نے لکھا کہ انہوں نے کہا ہے کہ ہم خیال گروپ کو خیبرپختونخوا سے 5 ارکان قومی اسمبلی کی حمایت حاصل ہوگئی ہے تاہم ان کے نام وقت آنے پر ہی بتائیں گے، اس کے علاوہ مزید ایم این ایز سے بھی رابطے میں ہیں۔ خیبرپختونخوا اسمبلی میں گروپ کی فی الوقت ضرورت نہیں تاہم وقت پڑنے پر خیبرپختونخوا اسمبلی میں بھی گروپ بناسکتے ہیں۔واضح رہے کہ گزشتہ رات لاہور میں جہانگیر ترین نے اپنے حامی ارکان پنجاب و قومی اسمبلی کے اعزاز میں عشائیہ دیا تھا جہاں پی ٹی آئی میں ہی جہانگیر ترین ہم خیال گروپ کے باضابطہ قیام کا اعلان کیا گیا۔ راجا ریاض کو قومی اسمبلی میں گروپ کا پارلیمانی رہنما بنایا گیا ہے جبکہ پنجاب اسمبلی میں سعید اکبر اس کی سربراہی کریں گے۔ ہم خیال گروپ نے پنجاب اسمبلی کے رواں اجلاس میں جمعےکے روز پاور شوکا فیصلہ بھی کیا ہے۔
جہانگیر ترین گروپ، چینی سکینڈل تحقیقات اور وزیر اعظم: معاملات یہاں تک کیسے پہنچے؟
ذرائع کے مطابق گزشتہ کئی دنوں سے قیاس آرائیاں اور دعوے جاری تھے کہ وزیراعظم عمران خان اور ان کے سابقہ دوست جہانگیر ترین کے درمیان ملاقات طے کر لی گئی ہے اور جہنگیر ترین گروپ کا معاملہ سلجھ۔ جائے گا۔ اس سے قبل تحریک انصاف کے کئی اراکین قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی نے بھی جہانگیر ترین کا ساتھ دیتے ہوئے وزیراعظم سے مطالبہ کیا تھا کہ جہانگیر ترین کے خلاف جاری کارروائی بند کی جائے۔ اس معاملے میں جہانگیر ترین نے تصدیق کی تھی کہ انکی وزیراعظم سے ملاقات طے ہوگئی ہے اور انہیں امید ہے کہ معاملات جلد حل ہو جائیں گے۔ تاہم ملاقات سے قبل جہانگیر ترین سمیت دیگر شوگر ملز مافیا کے خلاف کارروائی کرنے والی ایف آئی اے کی جے آئی ٹی کے سربراہ ڈاکٹر رضوان کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔
حکومت کے اندرونی ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کی ٹیم خسرو بختیار کو ٹو اسٹار شوگر مل میں 13 کروڑ کے شیئرزرکھنے پر طلب کرنا چاہتی تھی جبکہ تحقیقاتی ٹیم بہت سے حکومتی و اپوزیشن نمائندوں ، جہانگیر ترین اور ان کے صاحبزادے علی ترین کی گرفتاری کی اجازت چاہتی تھی۔ جس کے لئے اسے اجازت نہیں دی جارہی تھی یا کیس کی پیشرفت میں رکاوٹیں ڈالی جارہی تھیں۔ایف آئی اے نے جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے کے خلاف مارچ میں کارپوریٹ فراڈ اور منی لانڈرنگ کے الزام میں تین مقدمات درج کئے تھے ۔ گزشتہ کئی رپورٹس میں جہانگیر ترین کو براہ راست شوگر سکینڈل میں مورد الزام ٹھہرایا گیا تاہم جہانگیر ترین نے اپنے خلاف لگائے گئے تمام الزامات کو بے بنیاد اور مسترد قرار دے دیا تھا۔ذرائع کے مطابق ڈاکٹر رضوان نے شوگر مافیا کے خلاف آپریشن کرنے اور جہانگیر ترین سمیت اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے خود انکوائری کی تھی جبکہ چینی کی ذخیرہ اندوزی اور سٹہ بازی میں ملوث دیگر بااثر سٹہ بازوں اور شوگر ملز مالکان کے خلاف تمام مقدمات درج کرنے سے لیکر تفتیش کرنے اور اسٹیٹ بینک سمیت ایف بی آر اور دیگر اداروں سے ملنے والے شوائد کی جانچ پڑتال اپنی نگرانی میں کرتے رہے۔ڈاکٹر رضوان کی زیر نگرانی ہونے والی تحقیقات میں معلوم ہوا تھا کہ شوگر ملز مافیہ نے منڈیوں میں قیمتوں کو کنٹرول کر کے ان کی نقل و حمل کو مستحکم بنا کر 2020 کے صرف ایک سال میں 110 ارب روپے کا منافع کمایا۔
شوگر ملز سکینڈل کی تحقیقاتی رپورٹ میں کیا کہا گیا تھا؟
اس سے قبل شوگر ملز سکینڈل کی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ چینی کے بحران سے فائدہ اٹھانے والوں میں تحریک انصاف کے اہم رہنماؤں کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی شامل ہیں۔ رپورٹ میں تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین اور وفاقی وزیر خسرو بختیار کے قریبی رشتہ دار کے بارے میں کہا گیا کہ انھوں نے اپنے ذاتی فائدے کے لیے اس بحران سے فائدہ اٹھایا۔ حکومتی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الہٰی کو بھی چینی بحران سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہےکہ ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر رضوان نے جہانگیر ترین کی شوگر اسکینڈل میں گرفتاری کی اجازت بھی مانگی تھی اور اپنے مؤقف پر قائم رہنے پر کل ان کو کام سے روک دیا گیا جب کہ ابھی یہ واضح نہیں ہوا کہ ڈاکٹر رضوان کو ایف آئی اے سے بھی فارغ کردیا گیا ہے یا وہ اس ٹیم کا حصہ رہیں گے، اس مد میں ڈاکٹر رضوان کو حکومت کے اگلے حکم کا انتظار ہے۔ اس سے قبل چینی سکینڈل کی تحقیقاتی ٹیم رواں ہفتے 5 مزید شوگر مل مالکان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے والی تھی، اس وقت مجموعی طور پر 12 ایف آئی آر درج ہیں جن میں 3 جہانگیر ترین اور ایک ایف آئی آر شہباز شریف خاندان کے خلاف درج ہے۔ وفاقی وزیر خسرو بختیار اور ان کے بھائیوں کی شوگر ملز بھی اسی فہرست میں شامل ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شوگر مل مالکان اور سٹہ مافیا کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر پراسیکیوشن میں کمزور تھی یا اسے جان بوجھ کر کمزور رکھا گیا تاکہ کسی بھی لمحے ان مقدمات میں لچک دکھائی جاسکے یا کسی قریبی کو کوئی ریلیف دیا جاسکے۔اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر رضوان کے بعد اب شوگر اسکینڈل انکوائری سینئر افسر ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے ابو بکر خدا بخش کو دے دی گئی جو اب تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی کریں گے جب کہ اب تحقیقات نئے سرے سے ہوں گی۔ذرائع نے بتایا کہ ابھی کہا نہیں جاسکتا کہ ڈاکٹر رضوان بطورممبر جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کا حصہ رہیں گے یا نہیں تاہم انہیں تبادلے سے متعلق آگاہ کردیا گیا لیکن ابھی باضابطہ نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا۔ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق شوگرمافیا کے خلاف انکوائری کا 70 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے۔ دوسری جانب ترجمان ایف آئی اے نے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر رضوان کی تبدیلی سے متعلق بات کرنے سے گریز کیا۔ تاہم ایک بار پھر انہیں واپس لانے کی اطلاعات بھی سامنے آئیں تھیں۔