عوامی عہدے پر فائز کسی شخص یا حکومت کے خلاف عدم اطمینان پیدا کرنے کی کوشش ملکی سلامتی کے لیئے خطرہ سمجھا جائے گا

عوامی عہدے پر فائز کسی شخص یا حکومت کے خلاف عدم اطمینان پیدا کرنے کی کوشش ملکی سلامتی کے لیئے خطرہ سمجھا جائے گا
الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 (پی ای سی اے) کی دفعہ 37 کے تحت مطلع کردہ قواعد میں کہا گیا ہے کہ وفاقی یا صوبائی حکومت یا عوامی عہدے پر فائز کسی بھی شخص یا حکومت کے خلاف ”عدم اطمینان پیدا کرنے کی کوشش“ کرنے والے آن لائن مواد کو "پاکستان کی سالمیت ، سلامتی اور دفاع" کے لئے خطرہ سمجھا جائیگا تو اسے ہٹا یا بلاک کردیا جائے گا۔

ایسا قانون پہلے بھی پیش کیا جا چکا تھا مگر سول سوسائٹی ، میڈیا اور دیگر شعبوں کی جانب سے شدید تنقید کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے فروری میں یہ قانون معطل کردیا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ترمیم شدہ یہ قواعد پچھلے اصولوں سے کہیں زیادہ بہتری کی پیش کش نہیں کرتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ سنسرشپ کے دائرہ کار میں مزید اضافہ کیا جائے۔

ایگزیکیٹو ڈائریکٹر میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی اسد بیگ کا کہنا ہے کہ اس قانون اور سیٹیزن پروٹیکشن رولز میں صرف ایک چیز کا فرق ہے کہ نیشنل کوارڈینیٹر کا عہدہ ہٹا دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پی ٹی اے کو آن لائن مواد کو مانیٹر کرنے کے لا محدود اختیارات مل گئے ہیں جس کی کوئی حدود طے نہیں کی گئیں۔

قواعد کی دفعہ 4 (1) سنسرشپ کے لئے ایک توسیع کا فریم ورک تشکیل دیتی ہے ، جو پی ٹی اے کو اختیار دیتی ہے کہ وہ ہر اس مواد کو بلاک یا ختم کر سکتی ہے جس کا مقصد حکومت اور سرکاری ملازمین کو تنقید کا نشانہ بنانا ہے۔ ایسی تمام معلومات یا مواد جو حکومت کے خلاف جعلی اور جھوٹی باتوں کے بارے میں 'حقارت ، نفرت یا بدنظمی' پیدا کرسکتی ہیں۔ قواعد کے تحت پی ٹی اے کو ایسا مواد ہٹانے کی بھی اجازت دی گئی ہے جو شائستہ اور اخلاقیات کے منافی نظر آتا ہے جیسا کہ پاکستان پینل کوڈ میں بیان کیا گیا ہے۔
اس قانون کے تحت یہ طے نہیں کیا گیا کہ آیا پینل کوڈ کی تشریح عدالتیں کریں گی بلکہ پی ٹی اے عدالتوں کی مداخلت کے بغیر یہ فیصلہ کرے گی کہ کونسا مواد قانونی ہے اور کونسا غیر قانونی۔ اس قانون کے تحت فحاشی کے زمرے میں پی ٹی اے کا دائرہ کار بڑھا دیا گیا ہے۔ اب اس میں فحش ویڈیوز، کتابیں، آلات حتیٰ کہ گانے بھی شامل ہوں گے۔ یعنی اب پی ٹی اے بتائے گا کہ کونسا گانا فحش ہےاور کونسا نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پیکا کے سیکن 37 سے بالا بالا اب پی ٹی اے کے پاس طاقت ہے کہ وہ پورے کا پورا سسٹم بلاک کردے۔ پھر یہ کہ اسکے پاس اختیار ہوگا کہ وہ انٹرنیشنل کمپنیوں کو رجسٹر کرے جس کے بعد ہی وہ پاکستان میں آپریٹ کر سکیں گی۔  اس پر تو عالمی ڈیجیٹل میڈیا جائنٹس جیسے کہ گوگل فیسبک اور یو ٹویب نے کئی بار وزیر اعظم کو خطوط لکھ کر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے جو کہ کاروباری مواقعوں کے حوالے سے متعلق ہے۔ 

تجزیہ کاروں کے مطابق اس سب کا مقصد پی ٹی اے کو لا محدود اختیارات دے کر سیاسی و سماجی کنٹرول کے لیئے استعمال کرنا ہے اور اس ضمن میں اسکے ڈیجیٹل پاکستان کے خواب کے لیئے اسکے اثرات کو کسی صورت بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا۔