'مشترکہ اجلاس میں نظر آنے والی تعداد حقیقت کے برعکس تھی اور آنے والے دنوں میں یہ تبدیل ہوگی'

'مشترکہ اجلاس میں نظر آنے والی تعداد حقیقت کے برعکس تھی اور آنے والے دنوں میں یہ تبدیل ہوگی'
'حکومت ایک صفحے پر ہے یا نہیں' والے ڈرامے میں ایک نیا موڑ بدھ کے روز آیا جب حکومت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قریب تین درجن بل پاس کروانے میں کامیاب ہو گئی۔ اب بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور وزیر اعظم عمران خان کے درمیان معاملات پھر سے پہلے سے ہو گئے ہیں اور اب عمران خان کے لئے سب اچھا ہے اور یہ لوگ ان کا مذاق اڑا رہے ہیں جو پی ٹی آئی حکومت کی آخری رسومات ادا کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔

حقیقت لیکن اس سے کچھ زیادہ پیچیدہ ہے۔ ریڈ زون میں کچھ لوگوں سے ہوئی تفصیلی گفتگو سے پانچ نکات اخذ کیے جا سکتے ہیں جن سے کچھ اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی سیاست اس وقت کہاں کھڑی ہے۔

بغیر بیرونی امداد کے تحریکِ انصاف کے لئے بدھ کے روز یہ بل پاس کروانا انتہائی مشکل ہوتا۔ ریڈ زون کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسی امداد نے اتحادی جماعتوں کو پہلے اختلافات ظاہر کرنے کے باوجود آخری لمحات میں حکومت کا ساتھ دینے پر قائل کیا۔ لہٰذا 'ایک صفحے' کے بیانیے نے مشترکہ اجلاس بلانے اور اس کے ذریعے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں حکومت کی مدد کی جو کہ حکومت خود سے حاصل نہیں کر سکتی تھی، جیسا کہ اجلاس بلانے کی گذشتہ ہفتے کی ناکام کوشش سے واضح تھا۔ لیکن کیا اب 'ایک صفحہ' پھر سے اپنی اصل حالت میں بحال ہو گیا ہے یا یہ امداد بس اس بار کے لئے تھی؟

یہاں سے صورتحال کچھ پیچیدہ ہوتی ہے۔ ریڈ زون ذرائع کے مطابق جس انداز میں حکومت نے ڈی جی آئی ایس آئی کے نوٹیفکیشن کا معاملہ خراب کیا، اس پر پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ میں تناؤ حقیقی ہے۔ اور یہ بالکل موجود ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ اس گرما گرمی میں وہ ہوا میں تحلیل ہو چکا ہے تو یہ درست نہیں۔ اس وقت ریڈ زون میں متعدد پرزے بے سمت انداز میں ہوا میں تیر رہے ہیں اور یہ سب اپنا اپنا راگ الاپ رہے ہیں۔ آئی ایس آئی میں کمان کی غیر رسمی تبدیلی جمعرات کو ہو چکی ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم نے گذشتہ 15 دن بہت مصروف گزارے ہیں اور تمام معاملات پر تفصیلی بریفنگز کے بعد اب وہ اس چیلنج کے لئے بالکل تیار ہیں۔ یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ بدھ کے روز ہوئے مشترکہ اجلاس کی نگرانی وہ نہیں کر رہے تھے۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک صفحے پر ہیں یا نہیں، یہ باریکیاں اب اپنا اصل رنگ دکھائیں گی۔ لیکن صفحے پر ہونے اور نہ ہونے میں فرق کو پہچاننے کے لئے باریک بینی کی ضرورت ہوگی۔ ان دونوں کے درمیان ایک تیسری صورت بھی ہو سکتی ہے۔ کبھی کبھی دھڑکن اتنی ہلکی ہوتی ہے کہ اسے پکڑنے کے لئے کلائی زور سے دبانی پڑتی ہے۔

اگلے چند ہفتے اہم ہیں۔ مشترکہ اجلاس میں حکومت کو جو مدد ملی وہ جلد ختم ہونے والی ہے۔ حکومت کو اس کا علم ہے۔ بڑا سوال یہ ہے کہ اب تک جو بوجھ یہ کسی اور سے اٹھوا رہی تھی، اب خود اٹھا سکے گی؟ جہانگیر ترین  کے جانے کے بعد سے اس حکومت نے ثابت کیا ہے کہ یہ سیاسی جوڑ توڑ میں انتہائی کمزور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس جوڑ توڑ کے لئے بیرونی امداد ضروری نہیں، ناگزیر ہو گئی تھی۔ اب جب کہ یہ امداد ختم ہو رہی ہے، یا کم از کم پہلے کے مقابلے میں کم ہو رہی ہے، تو کیا آنے والے دنوں میں حکومت اپنے ہی تضادات کے بوجھ تلے دبنے لگے گی؟ اس تبدیلی کے مضمرات بہت جلد واضح ہونا شروع ہو جائیں گے۔ مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق کے درمیان بڑھتے رابطے اور اتحادی جماعتوں کی جانب سے حکومت پر گذشتہ چند روز میں ہونے والی شدید تنقید محض اتفاق نہیں تھا اور نہ ہی یہ مختلف واقعات کے ایک ہی وقت میں رونما ہونے سے پیدا ہونے والی کسی حادثاتی صورتحال کا نتیجہ تھا۔ تیل کی دھار دیکھی جا رہی تھی۔ تیل کی دھار دیکھی جا چکی ہے۔

اگلا امتحان سینیٹ میں ہوگا۔ اپوزیشن میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے حساب کے مطابق اگر انہوں نے اس وقت 'آپریشن سنجرانی' شروع کیا تو اسٹیبلشمنٹ حکومت کی مدد کے لئے حد سے آگے نہیں جائے گی۔ ان کا ماننا ہے کہ اب تک صادق سنجرانی اس لئے بچتے رہے ہیں کہ ان کے گرد ایک حفاظتی حصار تھا۔ یہ حصار اب کمزور ہوگا۔ اپوزیشن میں کچھ زیادہ معلومات رکھنے والے افراد کا دعویٰ ہے کہ بدھ کے مشترکہ اجلاس میں نظر آنے والی تعداد حقیقت کے برعکس تھی اور آنے والے دنوں میں یہ تبدیل ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں صادق سنجرانی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کا یقین ہے کیونکہ عددی اکثریت تو ان کے پاس ہے اور اگر ان کے سینیٹرز کو رات گئے مشکوک نمبروں سے کالیں نہ آئیں تو صادق سنجرانی کی بچت کا کوئی راستہ نہیں۔

حکومت کے پاس بھی راستوں کی کمی نہیں ہے، گو کہ جس انداز میں بیرونی امداد اس کو اب تک میسر تھی اب نہیں رہے گی۔ ایک آپشن تو یہ ہے کہ اپنے ناراض اراکین اور اتحادی جماعتوں کے ساتھ بات چیت کرے اور ان سے جو اختلافات حالیہ مہینوں میں پیدا ہوئے ہیں وہ دور کرے۔ وزیر اعظم کو محض سینیٹ میں سامنے آنے والے ممکنہ خطرے کے پیشِ نظر ایک دفعہ نہیں بلکہ بات چیت کا یہ عمل خود شروع کر کے اسے مسلسل جاری رکھنا ہوگا۔ تاہم، اس سے زیادہ اہم یہ ہوگا کہ وہ اسٹیبشلمنٹ کے ساتھ اپنے تعلق کو دوبارہ سے بحال کرنے کی کوشش کریں۔ ان باریکیوں پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ایسا کچھ نہیں کیا گیا جس سے اس تعلق میں دراڑ آتی۔ تاہم، یہ اب کسی حد تک 'پیچھے ہٹ گئی ہے'۔ اگر تحریکِ انصاف نے اس مسئلے کو حل نہ کیا تو اسٹیبلشمنٹ بتدریج پیچھے ہٹتی جائے گی۔ اس سے حکومت کی کمزوری کا تاثر بھی گہرا ہوگا اور اس کی کمزوری بھی۔

یہ پانچ نکات مل کر آنے والے ماہ میں ایک مختلف قسم کی بساط بچھی دکھا رہے ہیں۔ اس بساط پر اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس کچھ ایسی چالیں ہیں جو حکومت کو شہ مات دے سکتی ہیں۔ لیکن ایک مسئلہ ہے۔ مسلم لیگ ن اب تک اپنے اندرونی تضادات کو ختم نہیں کر پائی ہے حالانکہ اس کو نظر آ رہا ہے کہ اس کے پاس یہ ایک قیمتی موقع ہے۔ بدلتی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے حوالے سے پارٹی کے اندر ہوئی مشاورت کے باوجود بدھ کے روز مریم نواز اور شہباز شریف دو مختلف قسم کی بولیاں بولتے نظر آئے۔ پیپلز پارٹی اس صورتحال سے عاجز آ چکی ہے۔ اس کو فتح کی بو آ رہی ہے لیکن فتح نظر نہیں آ رہی کیونکہ اس کی راہ میں مسلم لیگ ن حائل ہے۔ ن لیگ، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام سینیٹ چیئرمین کو ہٹانے سے لے کر سڑکوں پر دباؤ بڑھانے، لاہور میں ایک بہت بڑا جلسہ کرنے، لانگ مارچ کرنے اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے سمیت بہت سی آپشنز پر بے انتہا مشاورت کر چکی ہیں۔ لیکن یہ تمام اہداف اس وقت تک حاصل کرنا ناممکن ہے جب تک کہ یہ تینوں مل کر آگے نہ بڑھیں، اور جب تک مسلم لیگ ن یہ طے نہ کر لے کہ وہ چاہتی کیا ہے یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ جو وہ چاہتی ہے، اس کے سامنے پڑا ہے۔

اس کہانی کا اگلا صفحہ کافی دلچسپ ہونے والا ہے۔