جدید قومی ریاست کے قیام سے قبل آمرانہ، سلطانی اور غیر جمہوری ریاستوں میں بادشاہوں اور جاگیرداروں کے اختیار کی بنیاد یہ ہوتی تھی کہ 'ہم زمین کے مالک ہیں، اس لیے عوام پر راج ہمارا حق ہے'۔ اس کی جگہ ایک جمہوری ریاست کا تصور یہ ہے کہ وہ عوام کے منتخب قانون ساز اداروں کے ذریعے اختیارات اور حقوق کے قوانین کے علاوہ ریاستی ضروریات اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ٹیکس (محصولات) لگاتی ہے۔ محصولات لگانے کا اختیارعوامی نمائندگی کے حق کے ساتھ مشروط ہے۔ اس کا اظہار اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 77 میں درج ہے؛
محصول صرف قانون کے تحت لگایا جائے
'بجز مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے کسی ایکٹ کے یا اس کے اختیار کے تحت وفاق کی اغراض کے لئے کوئی محصول نہیں لگایا جائے گا'۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے تحت زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے کا اختیار صوبائی پارلیمان (اسمبلیوں) کو حاصل ہے، ماسوائے ایسےعلاقہ جات کے جو صوبوں کا حصہ نہیں۔ وفاقی پارلیمان زرعی آمدنی کے علاوہ ہر قسم کی آمدنی پر انکم ٹیکس لگا سکتی ہے البتہ وفاقی دارالحکومت کے اندر زرعی آمدنی پر انکم ٹیکس لگانے کا اختیار وفاقی پارلیمان کو ہی حاصل ہے۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 260 کے مطابق 'زرعی آمدنی' کی تعریف وہ ہی ہو گی جو انکم ٹیکس کے وفاقی قانون میں درج ہے۔ آئین پاکستان کے اس غیر مبہم حکم کے باوجود کوئی بھی صوبائی حکومت دولت مند اور غیر حاضر جاگیرداروں کی زرعی آمدنی پر مناسب شرح پر انکم ٹیکس وصول کرنے کے لیے تیار نہیں جیسا کہ غیر زرعی آمدنی پر وفاقی انکم ٹیکس قانون کے تحت لاگو ہے۔
زرعی آمدنی پر انکم ٹیکس فی ایکڑ کے حساب سے نہیں بلکہ حقیقی آمدنی پر ہونا چاہئیے جو کہ آئین پاکستان کا تقاضا ہے۔ اس کو کوئی بھی صوبہ نظرانداز نہیں کر سکتا، مگر 1973 سے غیر آئینی عمل جاری ہے اورعدالت عظمیٰ سمیت تمام ادارے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
زرعی آمدنی کے بارے میں وفاقی حکومت کا رویہ اسلام آباد کی وفاقی حدود کی حد تک کچھ مختلف نہیں۔ اگرچہ یہاں امیر لوگوں کے زرعی فارمز ہیں اور دیہی علاقوں میں غیر حاضر جاگیردار بھی کافی دولت مند ہیں کیونکہ قومی سیاست، وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں میں جاگیرداروں کا اثر و رسوخ ہے۔ آئین پاکستان میں قومی اسمبلی کو زرعی آمدن پر انکم ٹیکس لگانے کا اختیار وفاقی حدود میں حاصل ہے مگراس کے لئے کبھی قانون سازی کا ذکر بھی نہیں ہوتا کیونکہ اس میں وہ طاقتور افراد بھی شامل ہیں جن کو ریاست کی زرعی زمینیں انعام و اکرام کے طور پر مفت دی جاتی ہیں اور وہ اس کو کرایہ پر دے کر خود خوشحالی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہ ہر منتحب حکومت پر اثر انداز ہوتے ہیں اور غریب کسانوں کی محنت پر شاہانہ طرز زندگی گزارتے ہیں۔
ظلم کی انتہا یہ ہے کہ غریب کسانوں کا استحصال ریاست بھی کرتی ہے۔ ان سے عام استعمال کی اشیا کے علاوہ زرعی آلات، بجلی، کھاد، زرعی ادویات اور دیگر اشیا پر بھاری سیلز ٹیکس اور ڈیزل، پٹرول وغیرہ پر پٹرولیم لیوی وصول کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بے شمار محصولات، پھر پولیس، پٹوار اور جاگیرداروں کی زیادتی۔ ایک سے زائد انکوائری رپورٹیں یہ بھی تسلیم کرتی ہیں کہ شوگر مالکان کسانوں کو گنے کی پیداوار کا جائز معاوضہ بھی نہیں دیتے۔
آئین کے مطابق زرعی آمدن پر انکم ٹیکس کے قوانین لاگو کرنے اورمحصولات میں اضافہ کرنے کے بجائے چاروں صوبائی حکومتوں نے پچھلے مالی سال میں مجموعی طور پر وفاق سے 4223 ارب روپے این یف سی ایوارڈ کے تحت حاصل کیے اور خود 815 ارب کے محصولات جمع کیے، جس میں ٹیکس محصولات 649ارب روپے تھے۔ ٹیکس حصولات میں زرعی آمدنی پر انکم ٹیکس کی وصولی کی شرح محض 0.3% تھی۔ رواں مالی سال کے نظر ثانی شدہ تخمینہ جات حیران کن طور پر کم ہیں۔ پچھلے مالی سال میں تمام صوبائی حکومتوں نے 2.4 ارب روپے بطور زرعی ٹیکس وصول کیے، حالانکہ اس کی ممکنہ استعداد ایک سے زیادہ تحقیقی مطالعات کے مطابق قومی سطح پر 800 ارب روپے تک ہے، اگر آئین پاکستان کے مطابق زرعی انکم ٹیکس نافذ کیا جائے۔ اگر صوبے یہ ٹیکس مناسب طور پر جمع کریں تو وفاق کا مالیاتی خسارہ کافی حد تک کم ہو سکتا ہے۔
وفاقی حکومت نے اپنے تحت آنے والے علاقوں سے کبھی کوئی زرعی انکم ٹیکس وصول ہی نہیں کیا۔ وفاقی بجٹ میں اس کا کبھی کوئی ذکر نہیں ملتا کیونکہ آئین پاکستان کے تحت قومی اسمبلی کو یہ ٹیکس لگانے کا اختیار ہے مگر یہ اختیار کبھی استعمال نہیں کیا گیا۔ کسی بھی سابقہ وزیر اعظم اور وزیر خزانہ محترم کو وفاقی وسائل میں اضافے کے لئے کبھی اس کے نفاذ کا ذکر کرتے ہوئے نہیں سنا گیا۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے بھی کبھی کسی رپورٹ یا سٹڈی میں اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ موجودہ چیئرمین ایف بی آر کے مطابق تو وفاق کو یہ حق ہی حاصل نہیں۔ آئین پاکستان سے ان کی لاعلمی پر اظہار افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ زرعی انکم ٹیکس کے علاوہ اسلام آباد اور گرد و نواح کے عالیشان محل نما مکانات اور فارم ہاؤسز پر پراپرٹی ٹیکس فی مربع میٹر کم از کم 2000 روپے سالانہ لگانے کا بھی کبھی کوئی ذکر نہیں ہوتا تا کہ اسلام آباد اور اس کے پسماندہ دیہی علاقوں میں سہولتوں کو بہتر کیا جا سکے۔
مہنگے قرضوں کو ادا کرنے کے لئے رقم امیر لوگوں کی جیب سے نکلوانے کا مشورہ بھی فنانس بل 2023 میں نظر انداز کیا گیا۔ اگرچہ پارلیمان نے 2013 میں انکم سپورٹ لیوی کی شکل میں غریب افراد کے لئے ٹیکس نافذ کیا مگر پھر اگلے سال ہی اس کو ختم کر دیا۔
مذکورہ بالا حقائق بتا رہے ہیں کہ اصل مسئلہ اٹھارھویں آئینی ترمیم یا این ایف سی ایوارڈ کا نہیں ہے، بلکہ نظام محصولات میں اصلاحات نہ کرنا، ناکارہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو، امیر اور بالادست طبقات کو ٹیکس کی مراعات اور چھوٹ، ریاستی ٹیکس چوروں اور قومی دولت لوٹنے والوں کو معافی دینا ہے۔ کیا اس کے لئے صوبوں نے وفاق سے مطالبہ کیا تھا یا قانون سازی میں حصہ لیا تھا؟ ٹیکس وفاق جمع نہ کرے اور الزام صوبوں پر، بہت خوب! آج کل یہ مشورہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک والے ماہر دے رہے ہیں۔
آئی ایم ایف کا قرضہ تو اب اربوں ڈالرز میں ہے، مگر حال ہی میں ورلڈ بینک سے محض نظام محصولات میں اصلاحات کے لئے 500 ملین ڈالرز کا ایک اور قرضہ لیا گیا ہے۔ کیا مقامی ماہرین اس قابل نہیں؟ فرصت ملے تو نگران وزیر اعظم اور نگران وزیر خزانہ یہ مضامین پڑھ لیں اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کے پالیسی پپیرز کو دیکھ لیں یا ان پر بریفنگ لے لیں۔
5 جولائی 1977 کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی وجوہ میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اُنھوں نے فنانس ایکٹ آف 1977 کے تحت زرعی آمدنی پر وفاقی انکم ٹیکس لگانے کا فیصلہ وفاقی پارلیمنٹ سے منظور کروایا اور اس پر صدر نے دستخط بھی کر دیے تھے۔ اس پیش رفت نے جاگیرداروں، زمینوں کے مالک جرنیلوں، ججوں اور امیر ارکانِ پارلیمنٹ پر مشتمل طاقتور طبقے کو ناراض کر دیا تھا کیونکہ ان کے پاس اپنی اور ریاست کی بہت سی زمینیں تھیں۔ اس قانون کو ضیاء الحق نے معطل کر دیا۔ بعد میں ضیاء نے بھٹو کا عدالتی قتل کروا کر جاگیرداروں اور دیگر مراعات یافتہ طبقات کو خوش کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جاگیرداروں اور مذہبی رہنماؤں نے ضیاء الحق کی حمایت کی تھی۔ اس ضمن میں مذہبی طبقہ کی کارگزاری خاص طور پر یاد رکھی جائے گی جس نے ضیاء کی آمریت کو مذہبی رنگ دے کر اس کی حمایت کو عوام پر مسلط کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور جس کا خمیازہ قوم آج تک برداشت کر رہی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد آنے والی بہت سی حکومتوں، جن میں سویلین اور فوجی دونوں شامل ہیں، نے چھوٹے کاشت کاروں پر آبادیاتی دور سے لگے ہوئے ظالمانہ محصولات کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ان میں مزید اضافہ کیا، لیکن بڑے جاگیرداروں کی زرعی آمدنی پر آئین کے مطابق انکم ٹیکس لگانے کی کسی کو توفیق نہ ہوئی۔ اور تو اور، محترمہ شہید بینظیر بھٹو نے بھی اپنی دونوں مدتوں کی حکومت کے دوران اپنے والد کے زرعی آمدنی پر وفاقی انکم ٹیکس کے قانون کو نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اٹھارھویں آئینی ترمیم کے دوران یہ کسی بھی سیاسی جماعت کا مؤقف نہیں تھا اور نہ آج ہے۔
پی پی پی کی سندھ حکومت سروسز پر تو سیلز ٹیکس وصول کر رہی ہے لیکن جب بڑے جاگیرداروں کی زرعی آمدنی پر آئین کے مطابق انکم ٹیکس کی بات آئے تو وہ بھی بے بس دکھائی دیتی ہے۔ اس کے باوجود پی پی پی اور تمام دوسری جماعتیں غریب عوام کی نمائندہ ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں۔
پنجاب میں بھی یہی کہانی ہے۔ یہاں بھی اسمبلی میں بڑے بڑے جاگیرداروں کا غلبہ ہے۔ وہ زرعی آمدنی پر آئین کے مطابق انکم ٹیکس دینے کے لیے تیار نہیں۔ یہاں اس ضمن میں بہت آسانی سے 500 ارب روپے اکٹھے ہو سکتے ہیں لیکن پنجاب حکومت نے پچھلے مالی سال کے دوران صرف 830 ملین روپے وصول کیے۔ یہ کل ٹیکس کا 0.1 فیصد تھا۔ 'خادمِ اعلیٰ' کے بعد تحریک انصاف کی مخلوط حکومت نے اپنے اردگرد جاگیرداروں، جیسا کہ چوہدری، ملک، کھوسے، رانے، ٹوانے وغیرہ سے کبھی بھی زرعی آمدنی پر آئین پاکستان کے تحت ٹیکس وصول کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اگر وہ ایسا کرتے تو ان کی حکومت کے پاس زائد محصولات ہوتے جس سے وہ غربت کا بہتر انداز سے مقابلہ کر پاتے۔
تحریک انصاف کی قیادت اقتدار میں آنے کے بعد شریف برادران اور آصف علی زرداری پر تنقید کرتی رہی لیکن اُنھوں نے خود خیبر پختونخوا میں ٹیکس کا نظام بہتر کرنے یا امیر جاگیرداروں سے زرعی آمدنی پر آئین پاکستان کے تحت انکم ٹیکس وصول کرنے کی زحمت نہیں کی۔ اپنے 10 سالہ دور حکومت کے دوران صوبے کا زرعی آمدنی پر انکم ٹیکس کا حصول کل محصولات کا اوسطاً 1 فیصد بھی نہیں رہا۔
بلوچستان کے حالات تو اور بھی خراب ہیں۔ یہاں کسی بھی مالی سال کے دوران زرعی آمدنی پر 5 ملین روپے سے زائد انکم ٹیکس وصول نہیں ہوا۔
تمام صوبوں میں امیر جاگیرداروں سے زرعی آمدنی پر آئین پاکستان کے تحت زرعی ٹیکس کا حجم بڑھانے کے لیے کوئی سیاسی جھکاؤ دکھائی نہیں دیتا۔ یہ حق ان کو آئین پاکستان بننے کے وقت سے حاصل رہا ہے اور اٹھارھویں آئینی ترمیم سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
آج مشکل ترین مالی حالات میں پہلے سے ہی غریب اور بدحال کاشت کار 18 فیصد سیلز ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ اُنہیں یہ ٹیکس زراعت کے لیے استعمال ہونے والی اشیا اور آلات پر بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی زمین پر دیگر ٹیکس بھی لاگو ہیں۔
ان ٹیکسوں کا بوجھ اُنہیں مزید غربت کی طرف دھکیل رہا ہے۔ پچھلی حکومت کی طرف سے سوچے سمجھے نافذ کردہ 18 فیصد سیلز ٹیکس نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ پی ڈی ایم حکومت نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اس کا پاکستان کی زراعت اور غریب، بدحال کاشت کاروں پر کتنا منفی اثر ہو گا۔
اونچی شرح کے بالواسطہ ٹیکسز نے دیہی علاقوں میں عوام کی بڑی تعداد کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا ہے۔ اس پر مستزاد، بہت سے علاقے بارشوں اور سیلاب سے بھی شدید متاثر ہوئے مگر ٹیکسز میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کوئی کمی نہیں کی اور کہا گیا کہ شکر کریں کہ ہم نے کوئی نیا ٹیکس نافذ نہیں کیا۔
کاشت کار سالانہ 1 لاکھ سے زائد ٹریکٹر خریدتے ہیں اور وہ اس پر سیلز ٹیکس وفاقی حکومت کو دیتے ہیں۔ یہی صورت حال کھادوں اور زرعی ادویات کی ہے، لیکن حکومت دولت مند اور غیر حاضر جاگیرداروں کی زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے کے لیے تیار نہیں جن کے باغات کروڑوں کے ٹھیکے پر جاتے ہیں۔ اس طرح کی آمدنی پر ٹیکس نہ لگانا اور زرعی پیداوار کا جی ڈی پی کے حجم میں مسلسل کمی ہونا افسوس ناک ہے۔ اس سال ماضی کی طرح ہمیں لاکھوں کاٹن بیلز کی درآمد کی ضروت ہے تاہم یہ معاملات وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ترجیحات میں شامل نہیں۔
وفاق اور صوبے دونوں بڑے جاگیرداروں کی زرعی آمدنی پر آئین پاکستان کے تحت انکم ٹیکس لگانے کے لیے تیار نہیں۔ اس کی وجہ ان کی سیاسی قوت ہے۔ سیاست اور اسمبلیوں میں بااثر یہ جاگیردار زرعی آمدنی پر انکم ٹیکس آئین پاکستان کے مطابق لگانے کی کبھی اجازت نہیں دیں گے اور ان کو ناراض کر کے کوئی بھی حکومت اقتدار سے فارغ ہو سکتی ہے۔
اس تمام مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ زرعی آمدنی پر ٹیکس کو وفاقی حکومت کے سپرد کر دیا جائے اور اشیاء پر سیلز ٹیکس صوبوں کو واپس دے دیا جائے جو ان سے آزادی کے بعد لیا گیا۔ پاکستان کے بہت سے معاشی مسائل کی وجہ یہ ہے کہ ریاست کے وسائل اور اختیارات مراعات یافتہ طبقات کے پاس ہیں جو بدعنوان سرکاری افسران کی پشت پناہی کرتے ہیں کیونکہ وہ ان کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ اگر پاکستان ان مسائل کے گرداب سے نکلنا چاہتا ہے تو اس شراکت داری کو توڑنا ہو گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام کو بااختیار بنایا جائے۔ اس مقصد کے لیے طاقت کا ارتکاز سیاست دانوں سے چھین کر عوام کو نچلی مقامی حکومت کی سطح تک منتقل کیا جائے جو آئین پاکستان کے آرٹیکل 140A کا تقاضا بھی ہے۔
ضروری ہے کہ فیصلے عوام نہ کہ سرکاری افسران کریں۔ عوامی نمائندے اور سرکاری افسران عوام کے سامنے جواب دہ ہوں۔ کوئی طاقت ور ادارہ ان کے جرائم پر پردہ نہ ڈال سکے اور اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی روش ترک کر سکے۔