آج سے کوئی دس روز قبل ہی کا ذکر ہے پاکستان کے سیاسی پنڈت، میڈیائی تجزیہ کار و غازی گفتار و تکرار۔۔ سب کے سب ایک ہی مدعے پر مصروف سخن تھے کہ نواز شریف کو عدالت نے بلا لیا ہے۔ اگر وہ نہ آیا تو کیا ہوگا؟ آگیا تو کیا ہوگا۔ وفادار قسمی میڈیا کا حصہ بتا رہا تھا کہ اگر نواز شریف نہ آیا تو اس کی تو سیاست ہی ختم ہوجائے گی۔ وہاں خوشیوں کے شادیانے بج رہے تھے۔ کہیں کہیں اس امر کا بھی ذکر خوف سے ہوتا کہ وہ آگیا تو کیا ہوگا؟
صنم کو یوٹیوبانہ ادائیں دکھانے والا بے وفا میڈیا کا ایک حصہ تھا کہ وہ اس صورتحال کا خیالی جائزہ لینے میں مصروف تھا کہ نواز شریف اگر آگیا تو اس حکومت کے کیا حالات ہوں گے؟ اور تو اور میں لکھنے پر مجبور ہوں کہ میرے صحافتی آئیڈیل کمال کے تجزیہ کار طلعت حسین بھی یہ کہتے پائے گئے کہ اگر تو نواز شریف نہ آئے تو انکی سیاسی حیثیت کے بہت بڑا سیٹ بیک ہوگا۔ 10 تاریخ آئی اور گزر گئی۔ سب کو معلوم تھا کہ کیا ہونا ہے وہی ہوا۔ وہ اشتہاری قرار دے دیئے گئے۔ شہباز گل ٹائپ مشیروں اور فیصل واوڈا و مراد سعید جیسے وزیروں بے تدبیروں نے دل کھول کر نواز شریف کی لیڈری پر طعنے کس لیئے کہ 18 تاریخ کا طلاطم خیز دن آگیا۔ طلاطم کیا تھا کہ جس کی سیاست کے ختم ہونے کے دس روز پہلے فتوے دیئے جا رہے تھے وہ ہی اس وقت پاکستانی سیاست کا مرکزی موضوع ہے۔ خبر تو یہی تھی کہ نواز شریف نے بلاول بھٹو زرداری کی اے پی سی میں شرکت کی دعوت قبول کر لی ہے۔ اور وہ ویڈیو لنک سے شرکت کریں گے۔ شرکت ہوگی تو خطاب تو ہوگا۔ بس یہ خبر تھی کہ ہر طرف صرف ایک ہی نام تھا۔ نواز اور بس نواز۔ ابھی یہی کچھ چل رہا تھا کہ گزشتہ روز ایک دھماکہ نواز شریف کے اپنے ٹویٹر اکاونٹ بننے کی صورت میں ہوگیا۔ جس کے بعد سے سوشل میڈیا پر نواز شریف ہی نواز شریف ہے۔ اب حکومتی ہرکارے کبھی قانون سمجھانے میں مصروف ہیں تو کبھی پیمرا اور پی ٹی اے گردی کی دھمکیوں میں۔
بہر حال وٹس ایپ پر انحصار کرتے پاکستانی میڈیا کی صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ انکے تجزیئے دس دنوں کے اندر ہی اوندھے منہ پڑے ہیں۔ مجھے ملنے والی معلومات کے مطابق نواز شریف کو اے پی سی میں شرکت پر آمادہ کرنے والی انکی بیٹی مریم ہیں۔ بلاول کا فون ایک رسمی کارروائی تھا کہ میزبانی کے فرائض انکے ذمہ ہیں۔ حتی' کہ نواز شریف کا ٹویٹر اکاونٹ بھی کوئی حادثاتی معاملہ نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا قدم ہے۔
اب وٹس ایپ سے فیض یاب ہونے والے یہی میڈیائی وفادار راگ الاپ رہے ہیں کہ اس اے پی سی سے ملے گا کیا؟ کیا کامیابی ہوگی؟ نواز شریف کے آجانے سے کیا ہوگا؟ تو عرض یہ ہے کہ اے پی سی سے کوئی فائدہ ہو نا ہو۔۔ نواز شریف کی اس میں شمولیت سے اپوزیشن کی۔موجودگی کا احساس ایک بار پھر تازہ ہوگیا ہے۔
جہاں تک رہا نواز شریف کا سوال تو ایک بات واضح ہے نواز شریف اس وقت اپنے آپ کو کم سے کم کی سطح پر رکھتے ہوئے مسلسل سیاسی طور پر متعلق رہنے کی کامیاب کوشش کر رہے ہیں۔ اور اے پی سی میں شرکت سے ایک بار پھر حکومت ہو یا اپوزیشن ہر طرف نواز شریف ہی نواز شریف ہوگا۔ مریم پارٹی میں متحرک ہیں اور نواز شریف کی نمائندگی کرتی ہیں۔ بیٹی پارٹی کو سنبھال رہی ہے اور نواز شریف نواز شریف کی اپنی سیاسی ٹائمنگ انہیں ہر طرح کے مخالف کوششوں کے باوجود زندہ رکھے ہوئی ہے اس سے زیادہ ان کے لیے کیا امر فائدہ مند ہو سکتا ہے؟
اب اگر دسمبر میں جڑواں شہروں کو ہجر کی یخ بستہ ہواوں نے آن لپیٹا کہ جس کی محکمہ طلسمیاتی تغیرات نشاندہی کر رہا ہے تو جو سرمایہ نواز شریف اس وقت اکھٹا کر رہے ہیں وہ اس جاڑے میں انکے لئے راحت کا سامان پیدا کرے گا۔