ننھے عمار فاروق کے ساتھ ماں کی آنکھوں کی چمک بھی رخصت ہوئی

ماں نے موتی کی مالا کی طرح سپنے بُنے ہوں گے۔ میرا بیٹا جوان ہو گا تو چاند سی دلہن لاؤں گی، کبھی عباد سے لڑائی ہوتی ہو گی تو کہتی ہو گی؛ 'ذرا بڑا ہو لینے دو میرے بیٹے کو، پھر دیکھنا'، اور عمار ساتھ ہی فرمائش کرتا ہو گا؛ 'ماما اس کے لیے آپ کو مجھے ایکس باکس لے کر دینا ہے'۔

ننھے عمار فاروق کے ساتھ ماں کی آنکھوں کی چمک بھی رخصت ہوئی

جب عمار پیدا ہونے والا ہو گا تو اس کی ماں نے سوچا ہو گا کہ بیٹا ہو گا تو یہ نام رکھوں گی، بیٹی ہو گی تو یہ۔ پھر بیٹا پیدا ہو گیا اور ماں نے اپنے شوہر کی محبت میں بیٹے کا نام بھی اس سے ملتا جلتا رکھ دیا۔ 9 مہینے اس کو اپنا خون دیا۔ اس کو اپنے بدن کی گرمی سے سینچا۔ جب کبھی خیال آتا ہو گا تو سوچتی ہو گی 'میرا بچہ'۔ عمار پیدا ہوا ہو گا تو لوگوں کی مبارک باد کا تانتا بندھ گیا ہو گا۔ لوگ مبارک باد دینے آتے ہوں گے تو ماں کہتی ہو گی؛ عمار کا منہ ڈھانپ دینا، نظر نہ لگ جائے۔ کیا پتہ تھا نظر تو لگ گئی۔

پھر عمار نے چلنا، دوڑنا، بابا کہنا شروع کیا ہو گا تو ماں نے کہا ہو گا؛ 'بابا آ جاؤ'۔ عمار نے پہلا لفظ بابا بولا ہوگا تو ماں کو غصہ آیا ہو گا اور فوراً عباد کو فون کیا ہو گا؛ 'عباد دیکھو بیٹے نے پہلا لفظ ہی بابا بولا ہے'۔ عباد ہنس دیا ہو گا۔ وقت نے پرواز کی۔ عمار نے سیکھنا شروع کیا ہو گا تو ماں نے کہا ہو گا؛ 'عباد عمار کو سٹڈی ٹیبل لے دو، اس کو ابھی سے عادت ڈالتے ہیں ناں'، اور عباد ہنس دیا ہو گا۔ گھر آ کر عمار کو ساتھ لے کر مارکیٹ سے سٹڈی ٹیبل خریدا ہو گا اور ویڈیو بنا کر عمار کی ماں کو بھیجی ہو گی۔ گاڑی میں بیٹھے کہا ہو گا؛ 'عمار ویڈیو بنا کر تمہاری ماما کو بھیجتے ہیں تا کہ اس کو یقین آجائے'، اور یوں وہ ویڈیو بنی ہو گی جو آپ سب نے بھی دیکھی ہے۔

ماں نے موتی کی مالا کی طرح سپنے بُنے ہوں گے۔ میرا بیٹا جوان ہو گا تو چاند سی دلہن لاؤں گی، کبھی عباد سے لڑائی ہوتی ہو گی تو کہتی ہو گی؛ 'ذرا بڑا ہو لینے دو میرے بیٹے کو، پھر دیکھنا'، اور عمار ساتھ ہی فرمائش کرتا ہو گا؛ 'ماما اس کے لیے آپ کو مجھے ایکس باکس لے کر دینا ہے'۔

وقت نے اپنا آپ دکھایا اور 9 مئی کا دن آیا۔ عمار کی ماں نے سوچا ہو گا عام احتجاجوں کی طرح کا احتجاج ہے، جیسے پہلے عباد لبرٹی اور زمان پارک جایا کرتا تھا ایسے ہی آج بھی گیا ہے لیکن اس شوہر کو دیکھ کر جینے والی ایک عام گھریلو پاکستانی بیوی کو کیا علم تھا کہ یہ احتجاج تو عام تھا لیکن 'دن خاص تھا'۔

محبت کے آٹے میں گندھی وہ ممتا کیا جانتی تھی کہ '9 مئی' کسے کہتے ہیں۔ احتجاج پر پکڑ دھکڑ شروع ہوئی ہو گی تو عباد کو دلاسے دیتی ہو گی؛ 'عباد کیوں منہ بنایا ہوا ہے، کچھ نہیں ہوتا، سب ٹھیک ہو جائے گا'۔ پھر شرارت بھرے انداز میں کہتی ہو گی؛ 'دیکھو میرے ہوتے تمہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، فکر نہیں کرو میں ہوں ناں'۔

پولیس نے عباد کو پکڑا ہو گا تو روئی دھوئی ہو گی۔ جب یہ پتہ چلا ہو گا کہ عباد کا مقدمہ سول عدالتوں میں نہیں چلنا بلکہ فوجی عدالتوں میں چلنا ہے تو کسی سے پوچھا ہوگا؛ 'فوجی عدالتوں اور عام عدالتوں میں کیا فرق ہے؟ فوجی عدالتوں میں تو صرف فوجیوں کے مقدمے نہیں چلتے؟' فوجی عدالتوں کی ہیبت سن کر بیٹوں کو گلے لگا کر کہتی ہو گی؛ 'آ جائیں گے بابا، پولیس والے غلطی سے پکڑ لیتے ہیں اور پیسے لے کر چھوڑ دیتے ہیں'۔

لیکن عباد کی مسلسل غیر حاضری پر عمار نے تنگ کرنا شروع کر دیا ہو گا اور دل میں باتیں کرتی ہو گی؛ "عباد میرے لیے نہیں، عمار کیلئے آ جاؤ'۔ لیکن عباد نہ آ سکا اور عمار چلا گیا۔ سوچتی ہوں عمار کی ماں کی آنکھوں کی چمک کا کیا ہو گا؟ اس کی گالوں کی سرخی کا کیا ہوا ہو گا؟ اس کے کنگن اور پہناوے کا کیا ہو گا؟ اس کے محبت سے سرشار جملوں کا کیا ہو گا؟ اس کے صبر اور حوصلے کا کیا ہو گا؟ وہ شوہر کو گلے لگانے کو ترسے گی۔ اس کی حدت کی کمی محسوس کرے گی یا بیٹے کا لمس اس کو ستائے گا؟