ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ادارے بااثر نادہندگان کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے لیے چوری کے مزید طریقے وضع کرتے ہوئے انہیں سہولت مہیا کرتے ہیں جبکہ ادائیگی کرنے والے (چاہے وہ ٹیکس کی صورت میں ہو یا بلوں کی ادائیگی کی صورت میں) اضافی بوجھ تلے دبائے جاتے ہیں۔ یہ صورت حال مزید واضح ہو کر سامنے آتی ہے جب بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کی جانب سے 'مشترکہ سزا' جیسے معاملات سامنے آتے ہیں جو کہ سماجی انصاف کے تقاضوں کے منافی ہیں اور یہ مشترکہ سزا (یعنی بجلی کی بندش) جب شدید گرمی کے موسم میں ہو تو یہ ماحولیاتی انصاف کی خلاف ورزی شمار کی جاتی ہے جو کہ عالمی سطح پر ایک انتہائی اہم موضوع ہے مگر پاکستان میں اسے نظر انداز کیا جانا عام سی بات ہے۔ اس کی بڑی مثال پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی ہے جہاں شدید گرمی کے موسم میں بجلی کی طویل بندش ایک مشترکہ سزا کے طور پر عام سی بات ہے۔
پاکستانی حکومت کا عالمی سطح پر بلند ترین قیمتوں پر بجلی فروخت کرنے کا فیصلہ پاور سیکٹر کی پائیداری اور کارکردگی کےساتھ ساتھ عوام، بالخصوص کم آمدنی سے لے کر درمیانی آمدنی والے طبقے پر بڑھتے معاشی بوجھ اور مسائل کے انبار میں اضافے کے بارے میں اہم سوالات اٹھاتا ہے۔ مگر بات یہ بھی ہے کہ ایسے سوالات پر کان دھرتا کون ہے؟ یہاں کسی فیصلے میں عوامی رائے شامل کب ہوتی ہے؟ سیاسی بنیادوں پر مقتدرہ و اشرافیہ کی جانب سے کیے جانے والے فیصلوں کی قیمت عوام کو چکانی پڑتی ہے۔ درحقیقت دیکھا جائے تو اس صورت حال کی بڑی وجہ حکومتی نااہلی اور آئی پی پیز کے ساتھ بوجھل معاہدے اور ان کی وجہ سے ہونے والا مسلسل مالی دباؤ ہے۔ ان معاہدوں میں اکثر صلاحیت (کپیسٹی) کے چارجز شامل ہوتے ہیں جو حکومت کو پابند بناتے ہیں کہ وہ ان آئی پی پیز کو بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کے عوض ادائیگی کرے، قطع نظر اس کے کہ اصل کھپت کچھ بھی ہو اور آئی پی پیز بجلی بنائیں یا نا بنائیں، بہرطورصارفین کے لیے مزید مہنگائی کی لاگت آتی ہے۔ یعنی مقتدرہ و اشرافیہ دونوں اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں اور اب یہ سب معاملات زبان زد عام ہیں۔
بجلی کے جاری بحران کی وجہ سے بجلی بنانے اور تقسیم کار کمپنیوں کے احتساب اور نیپرا کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھ رہا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ نااہل حکمرانوں کے اس طرح کے فیصلوں کے ساتھ حکومتی ادارے بجلی کی قیمت کے تعین اور تقسیم جیسے اہم معاملات میں باقاعدگی لانے کا کردار ادا کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں، بلکہ عوامی نقطہ نظر کی بات کی جائے تو لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان میں ریگولیٹری اتھارٹی صارفین کے مفادات کے تحفظ کے بجائے یوٹیلٹی کمپنیوں کے لیے محض ربڑ سٹیمپ کا کام کرتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ٹیرف کے تعین کے طریقہ کار میں شفافیت اور انصاف کی کمی ہے، جس سے صارفین کو بڑھتی ہوئی لاگت کا سامنا ہے۔
کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن کے مکین عرفان کہتے ہیں کہ 'نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی ( نیپرا) کے افسران بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے دلال بن کر عوام کا خون چوس رہے ہیں۔ یہ آپس میں معاملات طے کرتے ہیں اور پھر خبر ملتی ہے کہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ کر دیا گیا'۔ اب بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں سے کچھ پوچھا جائے تو وہ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی ( نیپرا) کا نوٹیفکیشن دکھا دیتے ہیں کہ نرخ تو نیپرا نے بڑھائے ہیں جبکہ مفاد دونوں کا ہے۔
ملک کے دیگر شہروں کی طرح کراچی کے رہائشی بجلی کی ادائیگیوں، اوور بلنگ اور ریگولیٹری اتھارٹی نیپرا کی جانب سے ناکافی ردعمل سے متعلق مسلسل مسائل سے دوچار ہیں۔ اصلاحات اور بہتر خدمات کے وعدوں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ بجلی کے بلوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اور ساتھ ہی بجلی کی طویل بندش ایک متواتر واقعہ ہے جس کی وجہ سے عوام تیزی سے مایوس ہو رہے ہیں کیونکہ ایک جانب وہ شدید معاشی مسائل سے پریشان ہیں اور ساتھ ہی وہ اپنے بجلی کے بلوں کی پیچیدگیوں کو تلاش کرتے ہیں کہ اس ماہ کون سا نیا ٹیکس کس انداز سے لگا کر بل میں اضافہ کیا گیا ہے۔ جیسا کہ حال ہی میں کراچی میں رہنے والوں کے بجلی کے بلوں میں بلدیاتی ٹیکس کا اضافہ کردیا گیا جبکہ بلدیہ عظمیٰ کراچی یہ وضاحت کرنے میں ناکام ہے کہ اس ٹیکس کے عوض وہ کیا سہولیات مہیا کرتے ہیں۔
کراچی بھر کے عوام اس بات پر متفق ہیں کہ بجلی کی قیمت کا تعین، تقسیم اور تعطل سب کے سب غیر منصفانہ ہیں کیونکہ بجلی کے وسائل کے انتظام اور قیمتوں کے ڈھانچے کے پیچھے دلیل کے بارے میں حکومتی اداروں کے پاس کوئی جواب موجود نہیں ہے۔ اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ حکومت اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات پر سیاسی فائدے کو ترجیح دے رہی ہے اور ادارے مافیا کا کردار دا کر رہے ہیں جنہیں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں اور ایسا صرف پاکستان میں ہوتا ہے۔ اس ملی بھگت کے باعث لاکھوں بروقت ادائیگی کرنے والے صارفین 'مشترکہ سزا' کے طور پر بجلی کی طویل بندش و تعطل کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں جبکہ ان کے بل پر ادارہ انہیں 'سٹار صارف' قرار دیتا ہے جبکہ ادارے بجلی چوری اور بلوں کی عدم ادائیگی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی ہمت نہیں رکھتے۔ یوں ان مسائل کو حل کرنے میں ناکامی نے قانون کی پاسداری کرنے والے، بروقت ادائیگی کرنے والے صارفین پر بوجھ کو مزید بڑھا دیا ہے اور وہ صارفین سوال کرتے ہیں کہ دوسروں کی کوتاہیوں پر انہیں غیر منصفانہ طور پر سزا کیوں دی جاتی ہے؟
شہر کراچی میں بجلی سے متعلق عوام کو دو طرح کے مسائل کا سامنا ہے جن میں پہلی مشکل بجلی کے بلوں کی ادائیگی ہے کیونکہ جیسے جیسے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے کم آمدنی والے طبقے کے ساتھ اب درمیانی آمدنی والے طبقے کے لئے بھی بلوں کی ادائیگی ایک چیلنج بن گیا ہے کیونکہ درمیانی آمدن والی آبادیوں میں فی مہینہ یونٹس کی تعداد 200 سے تجاوز کرنے کی وجہ سے وہ نان پروٹیکٹڈ کے زمرے میں آتے ہیں اور وہ بل جو 200 سے کم یونٹس ہونے پر 3 ہزار ہوتا ہے وہ 8 ہزار سے تجاوز کر جاتا ہے۔
دوسرا اہم معاملہ بجلی کے تعطل یعنی لوڈشیڈنگ کا ہے۔ شہر میں ایسے علاقے بھی موجود ہیں جہاں 24 گھنٹے میں سے 14 سے 16 گھنٹے بجلی موجود ہی نہیں ہوتی۔ مگر اکثر غیر رسمی آبادیوں کے مکینوں کا کہنا یہ بھی ہے کہ بجلی کی قیمت اتنی زیادہ بڑھ چکی ہے کہ اگر لوڈشیڈنگ کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے تو ہمارا بل 15 ہزار سے تجاوز کر جائے گا جبکہ فی گھرانہ آمدنی ہی 22 سے 25 ہزار ہو تو ایسے میں (ان رہائشیوں کے مطابق) یہ لوڈشیڈنگ ان کو اضافی بل سے بچاتی ہے۔
دوسرے شہروں کی طرح کراچی کے عوام بھی فوری اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں جو بجلی بنانے اور تقسیم کرنے والی کمپنیوں کو جوابدہ بنائیں اور منصفانہ اور شفاف ریگولیٹری فریم ورک کا مطالبہ کرتے دکھائی دیتے ہیں تاکہ سستی بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔ مگر حکومت اور ادارے اس معاملے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتے اور لگتا ہے کہ بجلی کی ادائیگیوں کے حوالے سے کراچی کے مکینوں کی مایوسی مزید بڑھے گی جس سے سماجی عدم اطمینان اور معاشی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ قابل تجدید توانائی، خاص طور پر شمسی توانائی پر توجہ مرکوز کرنا بجلی کے بحران سے نمٹنے کے لیے ایک قابل عمل متبادل پیش کرتا ہے کیونکہ شمسی توانائی (مہنگے اور فرسودہ بجلی پیدا کرنے کے طریقوں پر انحصار کم کرتے ہوئے) مکینوں کو صاف اور ماحول دوست توانائی کے براہ راست استعمال کرنے کی اجازت دیتی ہے جو کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب اب ناگزیر ہوتا جا رہا ہے۔ نیز یہ منتقلی ناصرف صارفین کے لیے بجلی کی قیمتوں کو کم کر سکتی ہے بلکہ توانائی کی آزادی اور ماحولیاتی استحکام کو بھی فروغ دے سکتی ہے۔