سپریم کورٹ میں زیرسماعت نظرثانی کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ جو بدنیتی میرےکیس میں سامنے آئی کبھی نہیں دیکھی اور میرے کیس میں تین از خود نوٹس لیے گئے۔
جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی نظر ثانی کیس کی سماعت ہوئی جہاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ نے دلائل دیے۔
عدالت نے فائزعیسیٰ سے تین سوالات کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی ہے۔عدالت نے جسٹس فائزعیسیٰ سے تین سوالات کیے کہ کیا فائز عیسیٰ اہلیہ کے بینک اکاﺅنٹ سے لاتعلق ہیں ، بیرون ملک جائیداد کیلئے بھیجی رقم سے جسٹس فائزکا قانونی تعلق نہیں ، جائیدادیں خریداری کیلئے اخراجات کیے ان کا جسٹس فائزسے تعلق نہیں۔
اس سے قبل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے عدالت سے ان کے خلاف فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے حوالے سے دیا گیا حکم واپس لینے کی استدعا کی۔
اس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے سرینا عیسیٰ کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ کی دی ہوئی دستاویزات پڑھ چکے ہیں، مناسب ہوگا مختصر دلائل دیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایف بی آر کی رپورٹ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں آئی،عدالتی فیصلے میں کیا غلطی ہے وہ بتائیں۔
سرینا عیسیٰ نے بتایا کہ میرے بینک اور ٹیکس ریکارڈ کا جائزہ میرا شوہر تک نہیں لے سکتا، ایف بی آر کی رپورٹ میری اجازت کے بغیر سپریم کورٹ بھی نہیں دیکھ سکتی۔
انہوں نے کہا کہ میری اجازت کے بغیر میرا ٹیکس ریکارڈ سپریم جوڈیشل کونسل بھی نہیں دیکھ سکتی، ٹیکس ریکارڈ میرا اور ایف بی آر کا باہمی معاملہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آدھے سچ پر مبنی رپورٹ کا کچھ حصہ میڈیا کو لیک کیا گیا، فواد چوہدری اور شہزاد اکبر جیسے لوگ ایک لائن پکڑ کر ڈھنڈھورا پیٹیں گے۔
کیس کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو برس کے دوران ہزاروں بار مرچکی ہوں، میرے خاوند ایف بی آر کے سامنے ہیں نہ میں سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے ہوں، سپریم کورٹ سے اپنا حکم واپس لینے کی استدعا کرتی ہوں۔
اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ ممکن نہیں کہ جج دستاویزت کا جائزہ سائل کی مرضی پر لیں، گزشتہ روز آپ نے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایف بی آر کی رپورٹ مانگی تھی، جس پر سرینا عیسیٰ نے کہا کہ ایف بی آر رپورٹ پڑھے بغیر ہی واپس کر دی ہے۔
سرینا عیسٰی نے کہا کہ توقع ہے عدالت بھی رپورٹ دیکھے بغیر ہی واپس کرے گی، ٹیکس کمشنر ذوالفقار احمد نے مجھے شنوائی کا موقع نہیں دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت کا مجھے ایف بی آر میں پیش ہونے کا حکم غلط تھا، عدالتی حکم پر ایف بی آر کے سامنے پیش ہوئیں اپنی مرضی سے نہیں۔
انہوں نے کہا کہ کئی دہائیوں پرانی تمام دستاویزات میرے پاس نہیں، تمام رقم اپنے ہی ایک اکاؤنٹ سے دوسرے میں منتقل کی،پیسہ اپنے اکاؤنٹ میں منتقل کرنا ہو تو وجہ معنی نہیں رکھتی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ نے کل کہا تھا کہ آپ کی تنخواہ اور کرائے کو نظر انداز کیا گیا،جس پر سرینا عیسیٰ نے کہا کہ ایف بی آر رپورٹ عدالتی حکم کے بعد تھی اس لیے اس کا حوالہ نہ دیں تاہم جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ آپ کی درخواست پر ہی فیصلے سے پہلے آپ کو سنا گیا۔
جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ ٹیکس حکام نے آپ سے تبدیل شدہ مؤقف پر کوئی سوال نہیں پوچھا، اس موقع پر جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ17 جون 2020 کو معاملہ ایف بی آر بھجوانے کی میری اہلیہ نے مخالفت کی تھی۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ آپ کی بات حقائق کے منافی ہے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ بات سمجھے بغیر ہی مداخلت کر دیتے ہیں اور ہدایت کی کہ اپنی نشست پر جاکر بیھٹیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سرینا عیسٰی کے خلاف کوئی انکوائری نہیں تھی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سرینا عیسیٰ کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ نے معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کا حکم چیلنج کیا ہے،عدالتی حکم برقرار رہا تو آپ کی ایف بی آر سے شکایات متعلقہ فورم پر ہوگی۔
سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ عمران خان نے آف شور کمپنی کو تسلیم کیا تھا، عمران خان کے لیے جو معیار رکھا گیا وہ میرے لیے نہیں رکھا گیا حالانکہ عمران خان سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں لیکن میں نہیں ہوں،عمران خان آج وزیراعظم ہیں اور میں ایک عام شہری ہوں۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے میرے خلاف ازخود نوٹس لیتے ہوئے کیس ایف بی آر کو بھیجا، کسی انفرادی شخص کے خلاف ازخود نوٹس نہیں لیا جا سکتا، از خود نوٹس عوامی مفاد اور بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا کیس ایف بی آر کو بھجوانا عوامی اہمیت کا معاملہ نہیں تھا، میرے خلاف دیا گیا حکم واپس لیا جائے۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ آپ کو باقاعدہ سماعت کا موقع فراہم کیا گیا تھا، عدالت بہت سے مقدمات میں باضابطہ فریق بنائے بغیر بھی فریقین کو سنتی ہے، آپ 18 جون 2019 کا اپنا بیان دیکھیں۔
سرینا عیسیٰ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مجھے کوئی باضابطہ نوٹس جاری نہیں کیا گیا تھا، جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میں جج ہوں آپ میرے سوال کا جواب دینے کی پابند ہیں، عدالتی کارروائی آپ نے نہیں ججوں نے چلانی ہے۔
جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ آپ کا بنیادی نکتہ ہے کہ آپ کو سماعت کا موقع نہیں ملا، عدالت میں دیا گیا اپنا بیان نہیں پڑھیں گی تو منفی تاثر جائے گا، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر عدالت سمجھتی ہے کہ باضابطہ سماعت ہوئی تو ٹھیک ہے لیکن میری اہلیہ اپنے بیان سے نہیں مکر رہی ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت سرینا عیسٰی کی بات سے متفق نہیں تو درخواست خارج کر دے، کل آپ کی بیویاں بھی یہاں کھڑی ہو سکتی ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کسی سائل سے قانون کا لیکچر نہیں لے سکتے، آپ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ جج مجھ سے کیوں نہیں پوچھتے، آپ عدالت انا چاہتی تھیں لیکن اپ کے شوہر نہیں چاہتے تھے،آپ نے رضاکارانہ طور پر اپنا مؤقف عدالت میں پیش کیا تھا۔
سرینا عیسیٰ نے کہا کہ اپنے والد کی وجہ سے عدالت آئی تھی، سرینا عیسیٰ اپنے مرحوم والد کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں۔
اس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ آپ کو کافی سن لیا ہے آپ بیٹھ جائیں اور اس کے ساتھ سرینا عیسیٰ نے اپنے دلائل بھی مکمل کرلیے۔
دلائل مکمل ہوتے ہی جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میرا مقصد آپ کو اداس کرنا نہیں تھا۔