می لارڈ! اب کیا ٹک ٹاک ہی پر ہتک کی جائے گی تو محسوس کریں گے؟

می لارڈ! اب کیا ٹک ٹاک ہی پر ہتک کی جائے گی تو محسوس کریں گے؟
مولانا سراج الحق نے جمعرات کو سپریم کورٹ میں ہونے والی ایک سماعت کے دوران چیف جسٹس سے مکالمے میں کہا کہ پوری قوم اس وقت ایک 'ٹرک' کے پیچھے لگی ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ موجودہ بحران کا حل سیاست میں ہے اور سیاستدانوں کے پاس ہی ہے۔ ان کے کہنے کا واضح طور پر مطلب یہی تھا کہ سپریم کورٹ راستے سے ہٹ جائے تو سیاستدان راستہ نکال سکتے ہیں لیکن جب تک سپریم کورٹ درمیان میں ہے، ایک فریق کو یہی لگے گا کہ دوسرے فریق کی سہولت کاری کی جا رہی ہے۔

اسی شام مولانا فضل الرحمان نے ایک پریس کانفرنس کی۔ وہ اس عدالتی کارروائی کا حصہ بننے سے انکار کر چکے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ عمران خان کو اب تک نااہل ہو جانا چاہیے تھا۔ سپریم کورٹ کے ججز کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک ایسے شخص کو آپ سیاست کا محور بنانا چاہتے ہیں جو اب تک نااہل ہو کر نظام سے باہر ہو چکا ہونا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے انصاف کو مانتے ہیں لیکن آپ کے ہتھوڑے کو نہیں مان سکتے۔

کچھ ہی دیر بعد پیپلز پارٹی سے بلاول بھٹو زرداری پریس کانفرنس کرنے آئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ سے باہر مذاکرات نہیں کر سکتے۔ یہ مذاکرات سینیٹ میں ہو سکتے ہیں، لیکن پارلیمان سے باہر ممکن نہیں۔ کسی اور ادارے میں یہ مذاکرات ممکن نہیں۔ یہ بھی بہت مشکل ہے کہ سب لوگوں کو اس بات پر قائل کر لیا جائے کہ مذاکرات زبردستی گن پوائنٹ پر کروائے جائیں۔ اپنی بات کی مزید تشریح کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ گن پوائنٹ سے مراد وہ فیصلہ ہے جو 4-3 کا تھا لیکن اسے تبدیل کر کے 3-2 کروایا گیا اور اب اس فیصلے کی بنیاد پر ہم سے کہا جا رہا ہے کہ جا کر مذاکرات کرو۔ اس بات کو ہمارے اتحادی قبول نہیں کر سکتے اور میں ان سے اتفاق کرتا ہوں۔

یہاں 'ٹرک' کا حوالہ دیا گیا۔ چیف جسٹس کے منہ پر۔ اور چیف جسٹس صاحب کو سننا پڑا۔ مولانا فضل الرحمان نے یہ الفاظ کہے تو نہیں لیکن اگر یہ کہا جائے کہ تمام عدالتی کارروائی کو جوتے کی نوک پر رکھا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ انہوں نے چیف صاحب کی جانب سے کی جانے والی زور زبردستی کو 'ہتھوڑے' سے تعبیر کیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے چیف جسٹس کی اس ہدایت کو کہ دو گھنٹے میں ایک فریق سے مذاکرات کریں ورنہ فیصلہ سنا چکے ہیں، گن پوائنٹ پر مذاکرات کروانے کی کوشش سے تشبیہ دی۔

لوگ کہتے ہیں چیف جسٹس کو اپنی عزت کا بہت خیال ہے۔ گذشتہ ماہ شاہد میتلا نے جنرل باجوہ کا انٹرویو کیا تھا۔ اس میں سابق آرمی چیف نے کہا ہمارے جج دباؤ میں بہت جلدی آ جاتے ہیں۔ ٹک ٹاک ویڈیوز سے دباؤ میں آ جاتے ہیں۔ اگر یہ درست ہے تو اور معاملہ صرف bad publicity سے دباؤ میں آنے کا ہے تو کیا یہ کچھ کم تحقیر ہے جو پریس کانفرنسز اور عدالت میں کھڑے ہو کر چیف جسٹس اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ کیا یہ کم بے عزتی ہے کہ ملک کی ایک کو چھوڑ کر تمام جماعتیں سمجھتی ہیں کہ سپریم کورٹ اس ایک جماعت کی سہولت کاری کر رہی ہے۔ وہ بار بار یہ الزامات دہرا چکی ہیں۔ کیا وہ کم بے عزتی تھی کو اپنے ہی ساتھی ججز نے فیصلوں کے ذریعے لکھ  کر دی؟ کیا وہ کوئی عزت کی بات تھی جب پوری پارلیمان نے فیصلے کے خلاف قرارداد پاس کی اور وہ قرارداد یہ نہیں کہتی تھی کہ وہ فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس قرارداد کا لب لباب یہ تھا کہ چیف جسٹس نے بے ایمانی کر کے بنچ سے ان ججز کو علیحدہ کروایا جو ان کے زیرِ اثر نہیں تھے اور ان ججز نے فیصلہ لکھ کر دے دیا تھا لیکن چیف صاحب نے ان کے فیصلے کو فائنل فیصلے کا حصہ ہی تصور نہیں کیا اور یہ کہ چیف جسٹس اور ان کے ہمنوا اقلیت میں تھے، اکثریت کا فیصلہ ان سے مختلف تھا۔

سب باتیں چھوڑیے، کیا یہ کم باعثِ ندامت ہے کہ سپریم کورٹ کی ساکھ اب اس سطح تک آ چکی ہے کہ اس کا فیصلہ کوئی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ یہاں تک کہ جب چیف جسٹس صاحب کے کچھ ریمارکس سے ایسا لگا کہ وہ شاید تحریکِ انصاف کی لائن سے ہٹ کر فیصلہ دینے جا رہے ہیں تو حسن ایوب اور اسد علی طور کے مطابق خود تحریکِ انصاف کے حامی رپورٹرز اور سیاستی ورکر ان سے آ کر کہہ رہے تھے کہ عدالت بک گئی ہے نا؟ عدالت نے مک مکا کر لیا ہے نا؟ یعنی اتنی 'سہولت کاری' کے بعد بھی ایک فیصلہ آنے سے بھی پہلے چیف جسٹس صاحب کو ایک منٹ کا آسرا کیے بغیر مک مکا کے طعنے دیے جانے لگے۔ کیا ہماری عدلیہ کی ساکھ ایسی ہونی چاہیے؟

اور یہ کیا bad publicity صرف پی ٹی آئی کے ٹک ٹاک پر ہو تو ہی bad ہوتی ہے۔ جب ملکی پارلیمان کا بڑا حصہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو ماننے کو تیار نہیں، انہیں ہتھوڑے، ٹرک اور گن پوائنٹ کے طعنے دے رہا ہے۔ صحافیوں اور انٹیلیجنشیا کا بڑا حصہ انہیں مسلسل بنچ فکسنگ اور سہولت کاری کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے تو کیا اسی میں عافیت جانتے ہوئے انہیں وہ وقت آنے سے پہلے اپنا قبلہ درست نہیں کر لینا چاہیے جب ان کے خلاف بات کرنے والوں کی یوٹیوب ویڈیوز پر بھی دس، دس لاکھ ویوز آ رہے ہوں گے؟ ان کو تو شکر کرنا چاہیے کہ پی ٹی آئی کی سہولت کاری سے انکاری صحافی فیک نیوز کے خلاف بضد ہیں۔ وگرنہ ویوز لینا کوئی اتنا بھی مشکل کام نہیں۔

چیف جسٹس صاحب، ہوش کے ناخن لیں۔ لالہ سراج شریف آدمی ہیں۔ کبھی کبھی ہی کام کی بات کرتے ہیں۔ ان کی بات کو سنیے، یہ آپ کے پتے کی بات کر رہے ہیں۔ راستے سے ہٹ جائیے۔ جن کا کام ہے، انہی کو کرنے دیں۔ اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ تاریخ آپ کو ہیرو کے طور پر یاد رکھے گی تو خاطر جمع رکھیے، یہ وقتی تعریف و توصیف افتخار چودھری صاحب کے بھی دماغ کو چڑھ گئی تھی۔ وہ تو آپ سے کہیں زیادہ پاپولر تھے۔ آپ کو تو اپنے ادارے میں 100 فیصد حمایت حاصل نہیں۔ تاریخ صرف تاریخ کی درست سمت کھڑے رہنے والوں کو ہی اچھے الفاظ میں یاد رکھتی ہے۔ اور ایک جج تاریخ کی درست سمت صرف اسی صورت میں کھڑا ہوتا ہے جب وہ فیصلے آئین و قانون کی روشنی میں دے۔ 63A کی طرح اپنا قبلہ بار بار تبدیل کر کے کوئی جج تاریخ میں اپنا نام سنہرے  حروف میں نہیں لکھوا سکتا۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.