'عمران خان کی دوغلی پالیسی ہے، ایک طرف فوج پر تنقید دوسری طرف مذاکرات کی بات کرتے ہیں'

خواجہ آصف نے کہا کہ جن لوگوں نے عمران خان کی کفالت کی۔ اس کی مدد کی یا اسے سامنے لے آئے وہی آج یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ شخص قابل بھروسا نہیں ہے۔ بات صرف اپنے مطلب کی کرتا ہے۔ جب اپنا مطلب ہوتا ہے تو یہ جھکتا ہے۔

'عمران خان کی دوغلی پالیسی ہے، ایک طرف فوج پر تنقید دوسری طرف مذاکرات کی بات کرتے ہیں'

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان نے سیاسی قیادت نہیں، فوج کے ساتھ مذاکرات کی بات کی ہے، ایک طرف وہ فوج پر حملے اور دوسری جانب مذاکرات کی بات کرتے ہیں، عمران خان دوغلی اور دورخی پالیسی رکھتے ہیں۔ یہ کہنا تھا پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور وزیر دفاع خواجہ آصف کا۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے سماء  نیوز چینل کے پروگرام میں اینکر منیب فاروق سےبات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی دوغلی اور دہری پالیسی ہے۔ وہ 2 چہرے رکھتے ہیں۔ آج تک عمران خان نے کسی سیاسی جماعت سے مذاکرات کرنے کی بات نہیں کی۔ عمران خان نے تو فوج سے مذاکرات کرنے کی بات کی ہے۔ ایک طرف تنقید  اور حملے کرتے ہیں اور دوسری طرف انہی لوگوں سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں۔ اس شخص کو کیا کہیں گے؟

خواجہ آصف نے کہا کہ جن لوگوں نے عمران خان کی کفالت کی۔ اس کی مدد کی یا اسے سامنے لے آئے وہی آج یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ شخص قابل بھروسا نہیں ہے۔ بات صرف اپنے مطلب کی کرتا ہے۔ جب اپنا مطلب ہوتا ہے تو یہ جھکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے تو آرمی چیف کی تعیناتی میں بھی مسائل پیدا کیے۔ سب جانتے ہیں کہ عمران خان چاہتے تھے کہ جنرل فیض حمید آرمی چیف بنے۔ ناراضی کے بعد ہم ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آئے۔

نواز شریف کے وزیراعظم نہ بننے کے حوالےسے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ہم سب کی خواہش تھی کہ نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم  بنیں لیکن اگر ان کی وزیر اعظم بننے کی خواہش نہیں تھی تو اس کے بارے میں مجھے علم نہیں۔ ہم اپنی ذاتی خواہش کا اظہار ہی کر سکتے ہیں۔

خواجہ آصف نے کہا کہ اگر وہ چوتھی بار وزیر اعظم بنتے تو تاریخ رقم ہوتی۔ نواز شریف نے اگر وزیر اعظم نہ بننے کی خواہش کا اظہار عرفان صدیقی سے کیا تھا تو اس بارے میں بھی انہیں معلوم نہیں ہے۔ شاید میاں نواز شریف اپنے بھائی کو وفاق میں لانا چاہتے تھے اور ساتھ ہی وہ مریم نواز کی عملی سیاست کا آغاز کرنا چاہتے تھے۔ ان کے ذہن میں جو تھا ویسا ہی ہوا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

خواجہ آصف نے کہا کہ میں عرفان صدیقی کی بات کی تردید نہیں کر رہا بلکہ اپنی خواہش کا اظہار کرتا رہا ہوں۔ لیکن دیگر منصوبے ہیں جن پر عملدرآمد ہو گا۔ اللہ تعالی تمام منصوبوں اور شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ میں برکت ڈالے۔ مریم نواز کو وزارت اعلیٰ کے لیے ہمت اور رہنمائی عطا کرے۔

پروگرام اینکر منیب فاروق نے خواجہ آصف سےسوال کیا کہ رانا ثناء اللہ نے نجی چینل کے ایک شو میں کہا کہ ہمارے سب وعدے سادہ اکثریت کی شرط پہ تھے۔عوام نے ہمیں سادہ اکثریت نہیں دی۔ اس لیے اب ن لیگ کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے کہ اپنا کوئی وعدہ پورا کرے۔ تو کیا وزیراعظم شہباز شریف سمیت آپ لوگ جو کابینہ میں بیٹھے ہیں، اپنے آپ کو پاکستان کے عوام کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہیں؟ آپ لوگ سمجھتے ہیں کہ مخلوط حکومت ہے اور ہماری کوئی ذمہ داری نہیں؟ اس سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ ہمیں پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت نہیں ملی لیکن اس وقت مخلوط حکومت ہے اور ایسا بالکل بھی نہیں ہے کہ مخلوط حکومت کا حصہ ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داریاں محدود ہیں تاہم اجتماعی ذمہ داری تو ہے نا۔

رانا ثنا اللہ میرے چھوٹے بھائی ہیں انہوں نے پارٹی کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں۔بحثیت وزیر ہم نے وزیراعظم سمیت اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہیں اور ہم عوام اور پارلیمنٹ کے سامنے برابر جوابدہ ہیں۔ ہمیں صرف وزارتیں ہی نہیں لینی چاہیے بلکہ ذمہ داری بھی قبول کرنی چاہیے۔

فیض حمید کے خلاف کارروائی کب ہونے کے حوالے سےسوال کیا گیا تو خواجہ آصف نے کہا کہ ماضی میں بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سروسز چیفس نہیں آئے۔ فیض حمید کے خلاف کارروائی کب تک ہو گی اس حوالے سے کوئی علم نہیں۔