Get Alerts

جج ارشد ملک کی قابل اعتراض ویڈیو سپریم کورٹ میں پیش

جج ارشد ملک کی قابل اعتراض ویڈیو سپریم کورٹ میں پیش
چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جج ارشد ملک کی وجہ سے ایماندار ججز کے سر شرم سے جھک گئے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ویڈیو سے متعلق اسکینڈل کے حوالے سے دائر درخواستوں کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور خان اور ڈی جی ایف آئی اے عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالتی حکم کے مطابق ایف آئی اے نے تفتیشی رپورٹ پیش کردی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تحقیقات مکمل کرنے کے لیے 3 ہفتے کا وقت دیا گیا تھا، رپورٹ میں 2 ویڈیوز کا معاملہ تھا، ایک ویڈیو وہ تھی جس کے ذریعے جج کو بلیک میل کیا گیا، دوسری ویڈیو وہ تھی جو پریس کانفرنس میں دکھائی گئی،ناصر جنجوعہ نے دعویٰ کیا ارشد ملک کو انہوں نے تعینات کرایا، کیا وہ مبینہ شخص سامنے آیا جس نے ارشد ملک کو تعینات کروایا تھا؟

اٹارنی جنرل انور منصور نے عدالت کو بتایا کہ جج ارشد ملک کی احتساب عدالت میں تعیناتی 13مارچ 2018 کو ہوئی تھی، ارشد ملک کی تعیناتی والا مبینہ شخص سامنے نہیں آیا۔ اس معاملے میں ہر کوئی لاتعلق ہوگیا ہے، مریم نواز نے کہا کہ ویڈیو کوئی کارکن ان سے لے گیا ہے ملتان والی ویڈیو کی تصدیق ہو چکی ہے، ڈاون لوڈ کی گئی ویڈیو کو بطور ثبوت پیش کرنا مشکل ہوگا۔  مریم نواز نے اپنے بیان میں کہا جج ارشد ملک کی 16 سال قبل بنائی گئی ویڈیو دیکھی نہ حاصل کی، جج کی مبینہ ویڈیو 2003 میں ملزم میاں طارق نے بنائی، ایف آئی اے نے ویڈیو کا فرانزک آڈٹ بھی کرا لیا۔

عدالت کے پوچھنے پر کہ ویڈیو کا فرانزک آڈٹ ہوا؟ تو اٹارنی جنرل کا جواب تھا کہ 2003 میں ملتان سے برآمد ہونے والی ویڈیو کا فرانزک ہوا،  اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ارشد ملک کی نئی ویڈیو کا فرانزک نہیں ہوسکا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق مریم کہتی ہے کہ ویڈیو ان کے پاس نہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے پوچھا کہ جج کی ویڈیو کا فرانزک کیوں نہیں کروایا گیا؟

ایف آئی اے کے ڈی جی بشیر میمن نے کہا کہ ایف آئی اے کے پاس اصل ویڈیو دستیاب نہیں۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ جو ویڈیو کی کاپی ہے اس کا ماہرین سے معائنہ تو کرائیں۔ پورے پاکستان کے پاس ویڈیو ہے مگر تفتیشی ادارے کے پاس نہیں۔

چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ جج ارشد ملک کی وجہ سے ایماندار ججز کے سر شرم سے جھک گئے، کیا جج ایسا ہوتا ہے کہ سزا دینے کے بعد مجرم کے گھر جائے؟ جو ایک بار ہوا وہ دوبارہ بھی بلیک میل ہو سکتا ہے، عدلیہ کی سطح پر ہم ان حالات کا جائزہ لیں گے، کسی نے تو یہ سارے پہلو دیکھنا ہیں، جس کے تعلقات ہیں اسے خاص طور پر احتساب عدالت میں لگوایا گیا، درخواست دے کر مقدمات ارشد ملک کو منتقل کرائے گئے، لاہور ہائی کورٹ ارشد ملک کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے، جج ارشد ملک کو یہاں رکھ کر حکومتی تحفظ دیا جارہا ہے، ویڈیو جب تک ہائی کورٹ میں پیش نہیں ہوگی اس کا کوئی فائدہ نہیں۔