سینئر صحافی رؤف کلاسرا نے کہا ہے کہ شہباز گل کے معاملے پر پی ٹی آئی میں تقسیم واضح ہوگئی ہے جبکہ فیصل واوڈا اور پرویز خٹک اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کے خواہش مند ہیں اور چاہتے ہیں کہ عمران خان اپنی پوزیشن میں نرمی لائیں اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کریں۔
رؤف کلاسرا نے اپنے وی لاگ میں بتایا کہ آج کل عمران خان نے بڑی سخت پوزیشن لی ہوئی ہے جبکہ دوسری جانب ان کی پارٹی میں بھی تقسیم ہے اور خاص کر شہباز گل کے معاملے پر ساری پارٹی تقسیم ہو چکی ہے۔
ذرائع کے مطابق آج پی ٹی آئی کی زوم میٹنگ ہوئی، اس میں پی ٹی آئی کے سینئر قیادت نے شرکت کی اور اس میں بہت گرم ماحول میں گفتگو ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ اس میٹنگ میں عمران خان کے علاوہ پرویز خٹک، فواد چوہدری، فیصل جاوید، فیصل واوڈا، سابق گورنر عمران اسماعیل، شیریں مزاری سمیت پارٹی کی اعلیٰ قیادت شریک تھی۔
رؤف کلاسرا نے کہا کہ عمران خان آجکل بہت غصے کو شکار ہیں انہیں لگتا ہے کہ انہیں دیوار کے ساتھ لگایا جارہا ہے۔ ان کو بند گلی میں لے کر جارہا ہے، اور انہیں اور ان کے ساتھیوں کو لگتا ہے کہ راستے بند ہوتے جارہے ہیں۔ تاہم پارٹی کے کچھ سینئر لوگوں کو لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑائی نہیں کرنی چاہیئے، انہوں نے بتایا کہ فیصل واوڈا اور پرویز خٹک نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیہ بنانے کی شدید مخالفت کی ہے۔
لیکن دوسری طرف پی ٹی آئی میں ایک گروپ صلح صفائی کے موڈ میں نہیں ہے، وہ گروپ چاہتا ہے کہ شہباز گل کے معاملے پر پارٹی کو لڑنا بھی چاہیئے اور اس کی اونر شپ لے کر لڑائی بھی لڑنی چاہیئے۔ اس میں اسد عمر اور فواد چوہدری شامل ہیں۔ حالانکہ فواد چوہدری کو شہباز گل کے بیان پر اعتراض تھا اور انہوں نے اعتراف بھی کیا کہ شہباز گل کو ایسا نہیں کہنا چاہیئے تھا۔
رؤف کلاسرا نے بتایا کہ فیصل واوڈا اور پرویز خٹک کافی دنوں سے کوشش کر رہے تھے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلاف کم کروائے جائیں، اور ان کی صلح کروائی جائے۔ ان کا خیال ہے کہ پارٹی میں کچھ لوگ عمران خان کو بند گلی میں لیکر گئے ہیں اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ انہیں نا اہل کروایا جائے اور شاید ان کے چانسز بن جائیں۔
عمران خان کو آج یہ بات میٹنگ میں کہی گئی کہ آپ کو بار بار کہا جارہا ہے کہ ہمیں لڑنا چاہیئے اور سٹینٖڈ لینا چاہیئے، آپ کو غصہ دلواتے ہیں، آپ سے سخت تقریریں کرواتے ہیں، آپ سے انٹرویو دلواتے ہیں اور خود جا کر ان کے پاؤں پکڑ لیتے ہیں، ان کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بھی اچھے ہیں، اس طرح آپ کے ساتھ ڈبل گیم ہورہی ہے، آپ کے سامنے آپ کو چڑھاتے اور غصہ دلواتے ہیں، لیکن دوسری طرف ان کے پاس جا کر اچھے بن جاتے ہیں۔ ان کا مقصد ہے کہ کل کو آپ کو ڈسکوالیفائی کروا کر اس سیکنڈ ٹئیر لیڈرشپ کا چانس بنے اور وہ وزیراعظم بن سکیں۔ عمران خان نے میٹنگ میں اس بات کا اظہار بھی کیا کہ انہیں پتہ ہے کہ پارٹی کے اندر لوگ کیا سوچ رہے ہیں۔
رؤف کلاسرا نے اپنے وی لاگ میں بتایا کہ میٹنگ کے دوران فیصل واوڈا اور پرویز خٹک نے کہا کہ شہباز گل کی وجہ سے پارٹی بیانیے کو بہت دھچکا لگا، ہمارا یہ بیانیہ تھا ہی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان شہباز گل کے معاملے میں کافی دنوں تک خاموش رہے جبکہ سینٹر فیصل جاوید اور شبلی فراز نے پارلیمنٹ میں انکے بیان کی مذمت بھی کی۔
انہوں نے بتایا کہ فواد چوہدری اور دیگر نے کہا کہ بھلے شہباز گل کی وجہ سے پارٹی کو نقصان ہوا لیکن وہ پارٹی کارکن ہے ہم انہیں اکیلا نہیں چھوڑ سکتے، ہمیں ان کی اونر شپ لینی ہی ہوگی، تاہم فیصل واوڈا کا اصرار تھا کہ اس معاملے پر پارٹی کو سخت پوزیشن نہیں لینی چاہیئے، فیصل واوڈ نے کہا کہ انہوں نے ہمیشہ پارٹی اور عمران خان کا مفاد سوچا ہے وہ ہر جگہ پر جا کر لڑتے ہیں اور آگے بھی لڑیں گے تاہم اس طرح عمران خان آئندہ وزیراعظم نہیں بن سکیں گے کیونکہ مثالیں موجود ہیں کہ کس طرح پہلے یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کو نا اہل کیا گیا، اسی طرح عمران خان کو بھی کیا جاسکتا ہے۔
فیصل واوڈا نے کہا کہ اگر آپ کو لگتا ہے کہ میں آپ کے خلاف ہوں، یا آپ کا دشمن ہوں تو میں یہ پارٹی چھوڑ دیتا ہوں۔ اس پر عمران خان نے کہا کہ آپ ٹھنڈے ہو جائیں اور بیٹھ جائیں۔
رؤف کلاسرا نے بتایا کہ اس طرح شہباز گل کے معاملے کو لیکر عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک نئی جنگ چھڑ گئی ہے اور لگ یہ رہا ہے کہ عمران خان لڑنے کے موڈ ہیں۔
اسی میٹنگ میں عمران خان کا سلمان رشدی پر حملے سے متعلق مذمتی بیان بھی زیر بحث آیا،جس میں کہا گیا کہ اس بیان کا مخالف پارٹیاں بھر پور فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ یعنی پی ٹی آئی میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان غصے میں اس طرح کے بیان دے رہے ہیں جس سے پارٹی امیج خراب ہورہا ہے، ان کا خیال ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ انڈر سٹینڈنگ سب سے اچھی تھی اور آج حالات بالکل مختلف ہیں، کل تک جو لوگ جیلوں میں تھے آج وہ اقتدار میں بیٹھے ہیں۔ اور ہم جو اقتدار میں تھے وہ سڑکوں پر آگئے اور ہمارے پاس کوئی مربوط لائحہ عمل نہیں ہے۔
اس گروپ کا خیال ہے کہ ٹھیک ہے ہمیں عوام کی سپورٹ حاصل ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمیں کچھ اداروں کی سپورٹ بھی چاہیئے، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ، میڈیا، الیکشن کمیشن سب میں ہمیں کچھ نہ کچھ سپورٹ چاہیئے۔ انہوں نے ہی الیکشن کروانے ہیں، اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ خان صاحب کو تھوڑے تحمل کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے لیکن دوسرا کیمپ چاہتا ہے کہ خان صاحب کو ڈٹ کر ان کا مقابلہ کرنا چاہیئے، عوام ہمارے ساتھ ہیں، ہم کو بیٹ بھی کر سکتے ہیں اور ڈیفیٹ بھی۔
لہذا بارٹی میں دو لوگوں کا خیال بالکل مختلف ہے اور پی ٹی آئی میں ڈویژن کھل کر سامنے آچکی ہے۔